en-USur-PK
  |  
29

سورہ فاتحہ

posted on
سورہ فاتحہ

SURA FATIHA

لودیانہ

کرسچن لٹریچر سوسائٹی کی طرف سے

 شائع ہوئی

1900

سورہ فاتحہ

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمـَنِ الرَّحِيمِ

الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

الرَّحْمـنِ الرَّحِيمِ

مَـالِكِ يَوْمِ الدِّينِ

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ

                    ترجمہ

          شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ جوصاحب سارے جہان کا بہت مہربان نہایت رحم والا مالک انصاند کے دن کا ۔ تجھی کوہم بندگی کریں۔ اورتجھی سے مدد چاہیں۔ چلاہم کو راہ سیدھی ۔ راہ اُن کی جن پر تونے فضل کیا۔نہ جن پرغصہ ہوا۔ اورنہ بہکنے والے۔

          بھائیو! جب آپ نمازپڑھتے ہیں تواس کے معنی سمجھنے کے بغیر اس کوطوطی کی طرح دھرانا نہیں چاہیے۔ لیکن اس کے معنوں کو سمجھ کر خدا سے دعا مانگنی چاہیے کیونکہ یہ " فاتحہ" جس کو آپ بار بار دہراتے ہیں بہت اچھی ہے۔

بِسْمِ اللّهِ

                    یہ بہت خوب ہے ہمیں ہرایک بات خدا کے نام پر بھروسہ کرکے کرنی چاہیے۔ کافر خدا کا نام نہیں جانتے لیکن وہ جو خدا سے ڈرتے ہیں۔ ہروقت خدا کا نام لے کے کام وکلام کرتے ہیں لیکن ضروری امر ہے کہ ہم اس کونیک نیتی سے کریں۔ فرض کرو کہ ہم بِسْمِ اللّهِ کرکے نماز پڑھتے اورسجدہ سے اٹھ کر فوراً جھوٹ بولنایااپنے بھائی کو دھوکا دینا یاگالیاں دینا شروع کریں۔ توکیا یہ خوب ہے؟ ہرگز نہیں۔ لیکن اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ دُکاندارجلدی جلدی اپنی نمازپڑھتاہے اور پھر فوراً اپنے خریدار کو جھوٹ بول کر دھوکا دینا چاہتاہے۔ یہ کام محض کافروں کے لائق ہے پر جب آپ بِسْمِ اللّهِ کرکے نماز پڑھتے ہیں توخبردار کہ آپ سے بُرے کام سرزد نہ ہوں۔


                    الْحَمْدُ للّهِ

          اس میں کوئی شک نہیں کہ اُس کی تعریف اوراُس کا جلال ظاہر کرنا ہم سب پر فرض ہے۔

                              رَبِّ الْعَالَمِينَ

          بیشک سچ ہے خدا نے دنیا کو بنایا اوراس کو دن بدن سمبھالتا ہے ۔ وہ سب کا بادشاہ ہے چنانچہ ہمیں اس کے حکموں کو ماننا چاہیے۔ ورنہ اُس بادشاہ کی طرح جو کہ شریروں کوسزا دیتاہے ہمیں سزا دیگا۔

                    الرَّحْمـنِ الرَّحِيمِ

                    یہ سچ ہے اگروہ رحیم نہ ہوتا توہم گنہگار کیونکر بچ سکتے صرف اُس کی رحمت اور فضل سے ہم نجات پاسکتے ہیں۔

                    مَـالِكِ يَوْمِ الدِّينِ

                    یہ بھی سچ ہے کہ عدالت کے دن سب آدمی اُس کے سامنے کھڑے ہونگے اور اپنے کاموں کا حساب دینگے چونکہ وہ خداوند ہے وہ پوری پوری عدالت کریگا۔

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

                    یہ بات نہایت اچھی ہے جولوگ خدا کی پرستش نہیں کرتے اور بُتوں کو پوجتے ہیں کافر ہیں۔ وہ خدا کےحکموں کو توڑتے ہیں یہ بات اُس کے حضور سزا کے لائق ہے۔ چاہیے کہ ہم صرف اُسی کی پرستش کریں اورہمیشہ اُسی پر بھروسہ رکھیں۔

اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ

                    ایسی دعا کرنا سچ مچ بہت عمدہ ہے ہم سب گنہگار ہیں ہم بُرے رستہ میں چلنے کو پسند کرتے ہیں۔ شیطان کوشش کرتاہے کہ ہم بُرے رستہ پرچلیں اورخدا کی مدد کے بغیر ہم کسی طرح سے خدا کے حکموں پر اور صراط المستقیم پر نہیں چل سکتے۔

            صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ

                    خداہمیشہ اپنے لوگوں سے محبت کرتا ہے "اوراپنے رحم سےاُن کو سیدھا راستہ دکھلاتاہے۔ اوراُن کوطاقت بھی دیتاہے کہ وہ اُس راہ پرچلیں۔

غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ

                    اکثر اشخاص بُرائی کی طرف جاتے ہیں ۔ خدا اُن سے ناراض ہوتاہے ۔ اوروہ آخرکار دوزخ میں اپنا حصہ پائینگے۔ اگرہم اُن کے ساتھ چلیں توہم اُن کے ساتھ ہلاک ہونگے۔

          اس لئے ہمارے لئے یہ مناسب ہے کہ اُس کے ساتھ ساتھ خدا کے بندوں کے رستوں پر چلیں تاکہ تباہ نہ ہوں۔ حاصل کلام ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کی تعلیم بہت خوب ہے۔ جب آپ دعا میں اُس کو دہراتے ہیں تواُسکے معنوں کو سمجھ کر دعا مانگیں تاکہ وہ آپ کو راہِ مستقیم پر چلائے۔ لیکن یادرہے کہ یہ نیک راہ پاکیزگی کا رستہ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمیں خدا کی پرستش کرنی چاہیے لیکن پاک چال وچلن کا بسر کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔ بہت سے خیال کرتے ہیں کہ اگرہم صرف نماز پڑھیں ، زکوات دیں ، روزہ رکھیں اورایسی اورباتیں کریں تو ہم ضرور بچ جائینگے۔ لیکن خدا صرف ان ظاہری کاموں سے خوش نہیں ہوتا۔ بلکہ ظاہر میں پاک چال چلن باطن میں ایک پاک دل طلب کرتاہے۔ اگرہم جھوٹ بولیں اور دھوکادیں لڑائی کریں اورزنا اوردوسرے گناہوں میں مشغول رہیں تو خدا ہم سے کبھی خوش نہیں ہوگا کہ ہم ظاہری طور سے مذہب کے امور میں بڑے سرگرم ہوں۔ یہ سب کام بُری راہ سے متعلق ہیں۔ پس اگرہم دعامانگیں کہ خدا ہمیں راہِ مستقیم پر لیجائے اورپھر بھی بُرے کام کرتے جائیں توپھر ہم نماز صرف طوطے کی طرح ادا کرتے ہیں۔ طوطے کی بھی نہیں بلکہ اس سے بھی بُری طرح سے کیونکہ ہم حقیقتاًریاکاربن چکے کیونکہ طوطے کی طرح ہم معصوم نہیں۔ بلکہ ہم فعلاً خدا کو دھوکا اورمکاری سے غصہ دلاتے ہیں۔ خدا اُن کی نماز سے کبھی خوش نہیں ہوتا جوکہ گناہ کی عادت رکھتے ہیں۔

                    ایک اوربات غور کے لائق ہے کہ نماز کے وقت آپ اکثر کہتے ہیں " رَبِّ الْعَالَمِينَ ۔۔۔۔۔۔ " وہ رحیم ہے اوراس بناء پر ہم نجات کے اُمید وارہیں۔ کیونکہ ہم سب گنہگار ہیں اوراگر خداوند رحم کرکے ہمارے گناہوں کو معاف نہ کرے توہم کسی طرح سے دوزخ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے ۔ لیکن جب خدا " مالک اور"  " ملک یوم الدین" کا ہے۔ تووہ کس طرح سے رحم کرسکتاہے؟ فرض کرو کہ ایک آدمی نے خون کیاہے۔ چاہے اس کا مقدمہ کیسے ہی رحیم مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو تووہ اس پر رحم دکھلانیکا مقدور نہیں رکھتا۔ اس کو عدالت کے قانون کے مطابق انصاف کرنا پڑیگا۔ گو وہ کتنا ہی رحم کرنا پسند کرے لیکن ازروئے قانون اس کوپھانسی کی سزا دینی پڑیگی۔ یہی ہمارا حال ہے ہم سب گنہگار ہیں ۔ ہم ہرروز گناہ کرتے ہیں۔ ہم ہرایک برس میں سینکڑوں گناہ کرتے ہیں اورہزاروں گناہ ہم اپنی زندگی میں کرتے ہیں لیکن خداوند جس کا نام عدل یعنی راستبازی ہے۔

                    مَـالِكِ يَوْمِ الدِّينِ

                    اوراس سبب سے آخری دن ہر ایک آدمی کا اُس کے اعمال کے مطابق انصاف کرنا ہوگا۔ اس حالت میں وہ عدالت کے دن کس طرح سے رحم ظاہر کرسکتاہے؟ اور مَـالِكِ يَوْمِ الدِّينِ کیونکر رحیم ہوسکتاہے۔ یہ مشکل محض انجیل مقدس کی تعلیم سے حاصل کی جاتی ہے۔

          انجیل مقدس میں لکھاہے کہ سیدنا مسیح نے گنہگاروں کے لئے اپنی جان دی اورگناہ کے لئے کفارہ کیا۔ اُس کفارہ کے وسیلے سے راستباز خداگنہگاروں پر رحیم ہوسکتاہے۔ سیدنا مسیح نے ہمارے گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر اٹھالیا اور وہ سزا جوکہ گنہگاروں کو ملنی لازم تھی اُس نے سہی۔ ہم اپنے گناہوں کے سبب سے گویا خدا کے قرضدار تھے لیکن سیدنا مسیح نے قرض ادا کرکے ہمیں آزاد کیا۔ وہ آدمی جوکہ اُس میں پناہ لیتے ہیں وہ گناہ کے نتائج سے بچ جاتے ہیں۔ پس صرف اُس ہی کے ثواب سے خدا جو" مَـالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے رحیم ہوسکتاہے ۔ خدا اُن پر جواپنا بوجھ سیدنا مسیح پر نہیں ڈالتے یا اُس سے تعلق نہیں رکھتے رحم نہیں کرسکتا۔ وہ عدالت کے دن خداوند کے حضور حساب دینے کیلئے کھڑے ہونگے اوراپنے گناہوں کے سبب سے بہشت میں جانے کے لائق نہ ٹھہرینگے۔ بلکہ ضرور دوزخ میں جائینگے۔ بھائیو! اگرآپ چاہتےہیں کہ آپ خدا کی رحمت میں شریک ہوئیں اوراگرآپ انصاف کے دن رہائی پانا چاہتے ہیں توسیدنا مسیح کا شاگرد ہونا اوراپنا بوجھ اُس پر ڈالنا چاہیے۔ چنانچہ انجیل مقدس میں لکھاہے کہ" ہم اُس میں ہوکے اُس کے خون کی بدولت چھٹکارا۔یعنی گناہوں کی معافی اُس کے نہایت فضل سے پاتے ہیں۔ افسیوں ۱ باب ۷آیت  اورپھر یوں لکھاہے " وہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے فقط ہمارے گناہوں ہی کا نہیں بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا بھی" دیکھو! خدا کا برہ جوجہان کا گناہ اٹھالیجاتاہے " اور رسولوں کے اعمال میں یوں لکھا ہے" کسی دوسرے سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو دوسر ا نام نہیں بخشا گیا ۔ جس سے کہ ہم نجات پاسکیں۔ دیکھو افسیوں کہ ۱باب کی ۷آیت ،یوحنا کا پہلا خط ۲باب کی ۲آیت اوریوحنا کی انجیل ۱باب ۲۹ آیت اوررسولوں کے اعمال ۴باب کی ۱۲آیت۔

          نماز میں یہ تم کہنے کے عادی ہوگئے ہو کہ اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ

بھائیو! خدا اُن لوگوں کوپیار کرتاہے جوکہ سیدنا مسیح پر بھروسہ کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم انجیل مقدس میں پڑھتے ہیں سیدنا مسیح پر ایمان لاؤ، اورتم نجات پاؤ گے ۔ اعمال ۱۶باب ۳۱آیت ۔ سیدنا مسیح نے خود کہا ہے" راہ ، حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی آدمی بغیر میرے وسیلے باپ کے پاس نہیں آسکتا ہے۔ یوحنا ۱۴باب کی ۶آیت " پس وہی راہ ہے اوراگر ہم اُس راہ  چلیں توہم بچ سکتے ہیں۔ اس کے سچے شاگرد بہشت کو جائینگے۔

بھائیو! خدا ہمارا دل چاہتاہے۔ اگرہم اُس کو اپنا دل دیدیں اوراُس کے حکم کو مانیں اوراُس راہ پر چلیں جوکہ اُس نے معافی اورنجات کے لئے بنایا ہے توہم بہشت میں پہنچ جائیں گے ۔ سیدنا مسیح ہی خدا کی راہ ہے ۔ کوئی اورنجات کی راہ نہیں ہے نجات قرآن کو دہرانے سے نہیں ملتی۔ لیکن صرف سیدنا مسیح پر ایمان لانے سے ملتی ہے۔ اگرہم سیدنا مسیح کے وسیلے سے روح القدس پائیں توہمارے دل کے خیالات اورہمارا چال چلن پاک ہوجائیگا ۔ بھائیو! سیدنا مسیح پر ایمان لاؤ۔

تمام شد

مشن پریس۔ لودیانہ ۔ایم۔ وائلی ۔مینجیر

 

 

 

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات, اسلام, مُحمد, تفسیر القران | Tags: | Comments (6) | View Count: (25203)

Comments

  • You are writing Surah -e-Fathiha and try to confuse and misguide an innocent reader that it is talking about Jesus being the God and attract people to christianity.This is very shameful.It is true that christianity is the only faith that spread through voilence(crusades,inquests,slavery)greed(bribe of money,jobs,women and citizenship of Europe and US) and now fraud,forgery and deceit.Fact is that though Jesus was given Injeel,but we don't find it anywhere in the book format,this bible that you say is Injeel is wrong.This book called bible was written by over 40 scholars over 1500years ago all after Jesus.Today there are many many versions of bible,written named REvised version,or new revised version.ANd the fact is that this is not final there will be more imrpoved versions,written by human beings half of whom have done sins like sodomy,illicit relations.You see the writers.We all know that such news keep on coming.Bible today says according to ZMathew,Mark,Luke and john meaning that the writer today who is improving on the work of theser 4 writers are some others that is why in Bible you read Jeremiah 8:8 and you see the truth (or lies)about the bible.I suggest you to be honest to yourself and think alone.Why there is no one who can memorise Gospel or bible"?while there are millions on earth to have memorised Quran.I know the christianity has encouraged its adherents to do many such acts which Jesus never taught or taught against but due to corruption in Bible nad misguidance of Christianity today this is what you see.Jesus changed water to wine and millions since then have died in car accidents, have done domestic violence,divorces,separations and other crimes.Did Jesus really converted water to wine.As a muslim I don't believe he would have.Gospel says he came and told the crowd that was about to stone a woman accused of adultery to let only that man come out who has not done this sin.ZSo if people since then do all kind illicit sexual activities this should be understandable.And the question comes why he himself didn't stone her?Thin about it. Then Jesus insults,humiliates and rejects a poor woman who wanted help from him to heal her son.But same Jesus writes back(he could write,so where is the injeel)to a king of a famous country(YOU tell me ehich country was it and what was its name)'Blessed are you who believe in me without seeing me.Both were gentiles but Jesus is very polite to rich man and insulting to a poor woman? If you really love Jesus then your first struggle should be to find "injeel"If you buy a red letter bible(gospel),in it red letter means what Jesus himself said.Remove all the duplicates out and it is not more than a column of a newspaper.In it you will be amazed to see there is no contradiciton with Quran,as many christian scholars now say,:Bibel doesn't contradict Quran except where it contradicts itself"So read Quran,it has more on Jesus than even in the gospel.And true.
    31/10/2016 4:17:38 PM Reply
  • I agree with the comments written by Syed Shujjat Ali Tirmizey. We the Muslims have firm believe upon Hazrat ESSA Elah He Salam and Angeel e Muqadas.
    25/08/2016 3:34:34 AM Reply
    • @Muhammad Iqbal: Yes we are not Muslim if we don't love and respect Jesus,the mighty messenger of God and the book that was given to him.But the strange thing is this that though Jesus was a educated person who knew how to read and write Aramaic and Hebrew yet the Injeel is no where to be found.All the other divine books exception Quran and Gospel are lost in text but their original language is still intact,Gospel is lost in both language and text,while Quran is intact in both its original language and text.And Quran has more in it about Jesus than Gospel has.Present gospel has over 50% written by Paul who was the bounty hunter of christians,in life time of Jesus,never met him yet after his death became the so called apostle and was able to write over 50% gospel.Can you imagine this.Can anyone beleive this book after knowing these facts.Then the gospel was written afte 65 to 70 years by the 4 people named Mathew,Mark,Luke and John.Imagine they must be at least 20 to 30 years old at the time of Jesus as it is said that they were around Jesus.These people at the time of writing were at least 90 or 95 years old.At this age a man is hit with memory loss,dementia,alsheimer.So how can anyone beleive in this writing?
      01/11/2016 6:03:58 AM Reply
    • @Muhammad Iqbal: Yes we are not Muslim if we don't love and respect Jesus,the mighty messenger of God and the book that was given to him.But the strange thing is this that though Jesus was a educated person who knew how to read and write Aramaic and Hebrew yet the Injeel is no where to be found.All the other divine books exception Quran and Gospel are lost in text but their original language is still intact,Gospel is lost in both language and text,while Quran is intact in both its original language and text.And Quran has more in it about Jesus than Gospel has.Present gospel has over 50% written by Paul who was the bounty hunter of christians,in life time of Jesus,never met him yet after his death became the so called apostle and was able to write over 50% gospel.Can you imagine this.Can anyone beleive this book after knowing these facts.Then the gospel was written afte 65 to 70 years by the 4 people named Mathew,Mark,Luke and John.Imagine they must be at least 20 to 30 years old at the time of Jesus as it is said that they were around Jesus.These people at the time of writing were at least 90 or 95 years old.At this age a man is hit with memory loss,dementia,alsheimer.So how can anyone beleive in this writing?
      01/11/2016 6:03:23 AM Reply
  • مجھے خوشی ہے کہ آپ سچ کا مکمل خون نہیں کرسکے۔ بات آپ نے سورہ فاتحہ (جو قرآن اقدس کی پہلی سورہ ہے) کی بظاہر تشریح ‘ تائید اور توصیف سے شروع کی ہے ۔ جز کی بظاہر تعریف کی ہے اور کُل یعنی قرآن شریف کو رد کیا ہے۔ ’’سیدنا مسیح ہی خدا کی راہ ہے۔کوئی اور نجات کی راہ نہیں ہے۔نجات قرآن کو دہرانے سے نہیں ملتی۔ لیکن صرف سیدنا مسیح پر ایمان لانے سے ملتی ہے۔‘‘ حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان ہم بھی رکھتے ہیں مگر آپ کی طرح ان کو خدا کا بیٹا یا خود خدا نہیں گردانتے ۔ وہ اللہ کے برگزیدہ نبی تھے خود خدا نہیں ۔ ۲۔ روزِ جزا کے حوالے سے اللہ کے بیک وقت عادل اور رحیم ہونے کے اسلامی تصور کو آپ سمجھ ہی نہیں پائے ہیں ۔ جب آپ اسلام کو سچا مذہب مانتے ہی نہیں تو اس کے جزوی تصورات پر بحث کی بجائے آپ کو یا تو براہ راست کہنا چاہیے کہ حضور نبی کریم ﷺ کا اپنی نبوت اور رسالت کے حوالے سے دعویٰ صحیح نہیں ہے ۔آپ کو اپنے اس عقیدہ کا بھی کھل کر اظہار کردینا چاہیے کہ (نعوذ باللہ) قرآن کلام خدا نہیں بلکہ کلام محمد ہے یا؟ ۳۔ آپ کے پاس دوسرا راستہ یہ تھا کہ دوسروں کے مذاہب پر بالواسطہ اعتراضات کی بجائے سیدھا سیدھا بتائیں کہ آج کی عیسائیت کس طرح مبنی برحق ہے؟ ۴۔ کچھ اعتراض آپ نے کیے ۔ایک سوال اور استفسار ہمارا ہے ۔ اللہ کا جو تصور آپ پیش کررہے ہیں کیا وہ کسی ایسے بادشاہِ حقیقی کا تصور ہے جو کائنات کے تختِ سلطنت پر بہترین اوصاف کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اللہ کا جو تصور آپ پیش کررہے ہیں وہ تو اس کو عادل ہی نہیں ظاہر کرتا‘رحیم ہونا تو دور کی بات ہے ۔یہ کیسا تصور ہے جس میں گناہ کوئی کرتا ہے اور حاکم نافرمانی کی سزا کسی اور کو دیتا ہے کیا یہ (نعوذ باللہ) بے شعور آقا ہے ؟ جس کی وسیع و عریض عدالت میں لاکھوں گناہگار موجود ہیں ‘لیکن گناہگاروں پر نہ کوڑے برساتا ہے نہ قید کرتا ہے نہ پھانسی دیتا ہے اور کسی اور کو جس نے سرے سے کوئی گناہ اور نافرمانی نہیں کی اس کو پھانسی دے دیتا ہے۔ وہ گناہگار کو معاف کررہا ہے ۔ اس کے گناہ کی سزا دوسرے کو دے رہا ہے۔آپ کے لفظوں میں یہ کیسا مجسٹریٹ ہے جو نہ تو انصاف کررہا ہے اور نہ رحم؟ ۵۔ کیا انسان کو( آپ کے پیش کردہ تصور خدا کے مطابق ) ایسے غیر عادل نہ رحم فرمانے والے اور بے شعور آقا کا بندہ ہونا چاہیے؟ ایسا خدا ۔۔۔۔آسمانوں کا خدا نہیں۔۔۔۔۔۔ چرچ کے انسانوں کا خدا ہے۔
    24/04/2016 7:32:48 AM Reply
  • Suberb I like it
    01/12/2015 4:15:10 AM Reply
Comment function is not open
English Blog