en-USur-PK
  |  
02

اسلام میں سچائی کامعیار

posted on
اسلام میں سچائی کامعیار

اسلام میں سچائی کامعیار

انتباہ:

اسلامی کتب میں قرآن اور احادیث ہی حرف ِ آخر ہیں ۔ مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ کا الہی مکاشفہ ہے، (مختلف ترجموں میں آئیتوں میں خفیف سا اختلاف پایا جاتاہے)۔ ہر سورۃ پورے باب کا پیشہ خیمہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق محمد مرد کامل کے طور پر ایک نمونہ ہیں جس کی تقلید ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو کچھ انہوں نے کہا اور عمل میں لائے وہ حدیث کہلاتی ہے۔ احادیث چھ طرح کی ہیں۔ احادیث : بخاری ، مسلم، ابو داؤد ، ترمزی، سنن ابنِ ماجہ، اور سنن نسائی۔ اس کتابچہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو محمد کی تعلیمات اور انکے کاموں سے روشناس کروایا جائے، نہ کہ ان کے جذبات کو برانگیختہ کیا جائے؛ مسلمانوں کو کسی حد اپنے خدا  کے بارے میں آگاہی ہو کہ اس موضوع کے حوالے سے اللہ اور محمد نے کیا کہا ہے۔

ہر مذہب میں سچائی کی قدر و قیمت کو اہمیت حاصل ہے ۔ مسیحیت کیمطابق ، " سب جھوٹوں کا آخری ٹھکانہ دوزخ ہے جہاں گندھک اور آگ ہے۔ ( مکاشفہ 21:8) اسلام بذات خود جھوٹ کو گناہ کبیرہ کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔ (سورۃ 6 اس کی 152 اور 153) ۔ لیکن کیا تمام مذاہب سچ کو یکساں اہمیت دیتے ہیں؟کیا سچ لچکدار ہے؟ کیا جو ہم دیکھتے ہیں وہی سچ ہے؟

شیخ محمد سعید تنتوانی، مصر کے مفتی اعظم ، ( اس کے علاوہ یہ مصر کی سب سے قدیم اور مشہور یونیورسٹی الازہر کے امام اعظم ہیں ) تمام دنیا میں موجود اہل سنت کے درمیان عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور سند کی حیثیت رکھتے ہیں، اکثر اوقات متضاد بیانات دیتے رہتے ہیں: سنہء 2004 میں ایک اطالوی روزنامہ " ایونائر" نے ان کی تقریر کے کچھ الفاظ شائع کئے جو کچھ اس طرح تھے، "  اسلام خود کشی کی ممانعت کرتا اور انسانی زندگی کو بیش قیمت عطیہ خداوندی سمجھتا ہے " ، لیکن سنہء 2002، میں اسلام آن لائن میں یہ کہتے ہوئے پائے گئے ، " اسرائیلی شہریوں ، بشمول عورتوں اور بچوں پر خود کش حملے جائز ہیں، بلکہ ان کی تعداد بڑھا دینی چاہئے! ایک نامور اسکالر اس قسم کے خیالات کا اظہار کس طرح سے کرسکتا ہے؟ لیکن یہ تنہا نہیں۔

آسٹریلیا کے گزشتہ مفتی اعظم ، شیخ تاج الدین الہلالی، 2004 میں اپنے مصر کے ایک دورے پہ ، انہوں نے جہادیوں کے حملوں کو نہ صرف سراہا بلکہ ان کی ہمت بڑھاتے رہے، اور جب واپس پہنچے تو ان بیانات کر دیا اور یہ بیان دیا کہ ان کے پیغام کو کسی اور طرح کا رنگ دیا جارہا ہے۔ اسی طرح، 2006 میں اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے عورتوں کیساتھ جبری مباثرت سے متعلق ان کے بیان کو رد کردیا گیا، کہ ان کے بیان کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے اور غلط طرح سے پیش کیا گیا۔

الازہر یونیورسٹی کے شیخ محمد سید تانتوائی، جن کا اہل سنت کے درمیان اعلے رتبہ پر فائز ہیں  سنہء 2002 میں اپنے ہفتہ وار خطبہ میں یہودیوں کے متعلق فرماتے ہیں، " اللہ کے دشمنوں میں سے اور خنزیر اور بندر کی نسل سے "۔  اسکے باوجود موصوف برطانیہ میں موجود تین بین المذہبی جماعتوں جن میں مسیحی، مسلمان اور یہودی شامل ہیں، پیٹرن ہیں۔  غیر عرب لوگوں کے لئے عربی سے انگلش ترجمہ میں موجود مشکلات کے حوالے سے ان کا یہ دعوی، کہ ان وجوہات کی بنا پر مثبت گفت و شنید بری طرح سے متاثر ہوتی ہے ، دراصل ایک اور حیلہ ہے جو اپنے مزموم عزائم کی تکمیل کے لئے دھوکہ دہی کے لئے استعمال کیا جاتاہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جو چاہتے ہیں کہ " اسرائیل کو سمندر میں دھکیل دیا جائے " بھی غلط ترجمہ اور سمجھنے میں غلطی کا عذر پیش کرتے ہیں۔ اور ایک ہی طرح کا طرز عمل ابھر کر سامنے آنے لگا ہے۔

تمام تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیجیئے، اسلامی افواج، مدمقابل جماعتوں کو دھوکہ دیتی آئی ہیں کہ اسلام اور مسلمان امن پسند ہیں، جو بعد میں اس کے عین ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً دمشق جو 635 ء میں مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب ہوا، کیونکہ انہوں نے دمشق کے ایک بشپ کے ذریعے آبادی کو دھوکہ اور رات کہ اندھیرے میں شہر کے حفاظتی کواڑ کھلوا لئے۔

بہت سے مصری مسیحیوں نے اسلامی افواج کو خوش آمدید کہا کیونکہ محمد کی زوجہ ایک مصری تھی اور( وہ سمجھے تھے کہ انہیں اس بناء پر خاص مراعات حاصل ہو جائینگی) خاصکر انہیں بزنطینی حکومت کی ایزارسانیوں سے نجات مل جائیگی۔ بہرحال، 1400 سال کی سخت ایذارسانیاں ان کا انتظار کر رہی تھیں اور آج بھی مسیحیوں کا قتل ، اغواء اور تشدد اجاری ہے۔

بجائے اس کے کہ ہم اس اہم مسئلے کو نظر انداز کریں، ہمیں چاہئے کہ تحقیق کریں کہ کیا واقعی اسلام گناہِ کبیرہ کے حوالے سے نرمی کا مظاہرہ کرتا ہے؟ اور اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ، محمد اور سنت محمدی کا مطالعہ کریں۔

اللہ تیس مرتبہ قرآن میں برملا اس خیال کا اظہار کر تا ہے کہ وہ لوگوں کو بھٹکاتا ہے اور وہ سب سے بڑا دھوکہ باز (مکار) ہے (الہ و خیرالمکارین) (سورۃ 3:54؛ 8:30) ، اللہ فرماتا ہےکہ وہ لوگوں کو راہ سے بھٹکاتا ہے ، (سورۃ 4اس کی 88 اور 143 آیات؛ 6 اس کی 39 اور 126 آیات؛ سورۃ 7 اس کی 178اور 186آیات؛ سورۃ 9:51؛ سورۃ 13 اسکی 27اور 31آیات؛ سورۃ 14:4؛ 16:93؛ 17 اس کی 13 اور 97 آیات؛ 30:29؛ 35:8؛ سورۃ 36اس کی 8 تا 10 آیات؛ 39:12؛ سورۃ 40 اسکی 33، 34، 74 آیات؛ سورۃ 42 اسکی 44 اور 46 آیات؛ 74:31)۔

یہانتک کہ پہلے خلیفہ صدیق الالمین نے فرماتے ہیں، " خدا کی قسم میں اللہ کے مکر سے خود کو محفوظ نہیں سمجھتا چاہے میرا ایک پاؤں جنت میں کیوں نہ ہو! " (خالد محمد خالد ، پیغمبر کے جانشین، (سنہء 2005)، صحفہ نمبر 99۔

محمد یہ ایمان رکھتا تھا کہ جھوٹ جائز ہے اور یہ بھی سکھلایا کہ کس طرح سے کئے گئے عہد میں ردوبدل کیا جاسکتا:

' انشاء اللہ ، اگر میں کوئی عہد باندھوں اور بعد میں مجھے خیال آئے کہ مجھے کسی دوسرے کام میں زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے تو میں وہ دوسرا کام کرونگا اور اپنے عہد کے لئے کفارہ ادا کردونگا۔ ' ( البخاری ، حدیث نمبر 361، جلد نمبر 4)

محمد وعدہ خلافی میں کوئی عار نہ سمجھتا تھا۔ اس کا یہ معمول تھا کہ جو وہ کہتا ضرورت پڑنے پر اس کے بالکل برعکس کیا کرتا تھا ۔ وہ لوگوں کو انکے گھروں میں جب وہ غافل ہوتے تھے، اپنے لوگوں کو بھیج کر قتل کروادیا کرتا تھا، اور اس حوالے سے خصوصی ہدایت جاری کرتا تھا کہ عوام الناس کو سچائی سے دور رکھا جائے کہ لوگ مارے جارہے ہیں۔

A.Guillaume, the Life of Muhammad, البخاری حدیث نمبر 143، جلد نمبر 4 اور

امام جعفر صادق کا ایک بیان کچھ اس طرح ہے، " تمہارا تعلق ایک ایسے دین سے کہ جسمیں اگر تم کچھ چھپاتے ہو تو اللہ تمہیں عزت سے نوازتا ہے اور اگر تم کچھ ظاہر کرتے ہو تو طعن تو تشنیع سے نوازتا ہے۔ (احمد عبداللہ سلمٰی ) The Sunni and Shia Perspective of The Holy Qur’an

اسے عرف عام میں التکیہ کہا جاتا ہے (شرعی طور پر جائز جھوٹ)

سورۃ 3:28 اور دوسری آیات کیمطابق مسلمان، غیر مسلمین کو سچے دوست نہیں بناسکتے، کیونکہ اس طرح سے وہ سچے مسلمان نہیں رہتے!

مؤمنوں کو چاہئے کہ مؤمنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے خدا کا کچھ (عہد ) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو (تو مضائقہ نہیں) اور خدا تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف (تم کو) لوٹ کر جانا ہے۔

مذید دیکھئے ( سورۃ 60:1؛ 4:144؛5:51؛8:73)

دوسرے لفظوں میں خود کو آپ سے محفوظ رکھنے کے لئے، اپنے آپ کو آپ کے مدمقابل زیادہ طاقتور کرنے کے لئے ملسمان ظاہری طور پر خود کو آپ کے دوست ظاہر کرسکتے ہیں۔ کچھ مسلمان کہتے ہیں کہ ایسا صرف شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں میں ہی رائج ہے ، لیکن ابن ِ کثیر ایک نامور عالم جن کا تعلق اہل ِ سنت سے ہے تکیہ سے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ، " کچھ لوگوں کے چہروں پر تم مسکراتے ہیں لیکن دل میں ان پر لعنت بھیجتے ہیں "۔ ( فتح الباری 10:544، ابن کثیر میں مذکور ہے ، تفسیر ، جلد نمبر 2، صحفہ نمبر 141 تا 143) مزید برآں، موصوف فرماتے ہیں ، کہ بوقت ضرورت، جب مسلمانوں کی جانوں کو زندگی کا خطرہ لاحق ہو تو وہ مسلمان ہونے سے انکار کرسکتے ہیں، اسلام سے انکار کرسکتے ہیں بلکہ قرآن اور محمد کے بھی انکاری ہو سکتے ہیں ۔ وہ سماجی بھلائی یعنی اسلام کے پھیلاؤ کے لئے جھوٹ بول سکتے ہیں۔

(Imamovic, Outlines of Islamic Doctrine, P.346)

اس طرح سے وہ معاہدوں کے پابند نہیں، (سورۃ 47:35؛ سورۃ 2 اس کی 224 تا 225 آیات؛ سورۃ 66 اس کی 1 تا 2 ؛ سورۃ 16 اس کی 91 اور 94 آیات)  اور دوبارہ منظم و مسلح ہونے کے لئے وقت فراہم کیا جاتا ہے۔

ہردور میں مشہور مسلم اسکالر، مشہور زمانہ امام غزالی ، بیان فرماتے ہیں، کہ جھوٹ واجب ہے کیونکہ مقصد واجب ہے، اور جو سچ بولنے کے سبب سے حاصل نہیں ہوسکتا۔  (احمد ابن ناقب المصری، (1368)، ریلائنس آف دی ٹریولر، مترجم ، نوح ہائم کیلر (1994)، ر۔8۔2، صحفہ نمبر 745)۔ دعویٰ (اسلامک تبلیغ) لازمی ہے؛ اگر اسلام سچائی کی بنا پر نہیں پھیلتا تو پھر جھوٹ کو استعمال جائز و ضروری ہے۔

بمطابق غزالی، محمد لوگوں کو تعلیم دیا کرتا تھا کہ ، سزا سے بچنے کےلئے اپنی بات سے پھر جایا کریں؛ اور تب بھی جھوٹ بولا جاسکتا ہے جب، جھوٹ کے بالمقابل سچ بولنے کے نتائج زیادہ سنگین ہوں۔ (ایضاً ، صحفہ نمبر 746)

تکیہ کا حتمی مقصد یہ ہے کہ دشمن کو اللہ کی فتح کے لئے الجھانے کیساتھ ساتھ تقسیم کردیا جائے۔ اس کی بہترین مثال سورۃ نمبر 2:256  کا استعمال ہے، " دین میں جبر نہیں " لیکن وہ سورۃ 9:5 اور 29 (اور دوسری) کو پڑھنے میں ناکام رہتے ہیں جو پچھلی سورۃ کو منسوخ کرتیں ہیں۔ موجودہ حالات میں غیر مسلموں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ اپنی جان کی امان کے لئے یا تو اسلام قبول کرلیں، یا پھر جزیہ دیں اور ذلت و رسوائی کے لئے اور مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے لئے تیار ہوجائیں۔

ایکطرف تو قرآن بیشتر مقامات پر جھوٹ بولنے کی ممانعت کرتا ہے ، لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا، نہ صرف یہ کہ اللہ اور محمد دونوں نے جھوٹ کا استعمال کیا بلکہ اپنے ماننے والوں کو جھوٹ اور دھوکہ دہی کی تعلیم بھی سکھلائی۔ ستم ظریفی یہ کہ جھوٹ کی اس طویل تاریخ نے مسلمانوں کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ وہ اپنے جھوٹ پر یقین کامل رکھتے ہیں ۔ (Irshad Manji, The Trouble with Islam, Random House, Sydney, 2003, p.4)

سچائی بمطابق بائبل مقدس:

بائبل اس کے عین برعکس سکھلاتی ہے۔ یہ نہ اسے نظر انداز کرتی ہے ، اور نہ ہی کسی قسم کی دھوکہ دہی کی اجازت دیتی ہے۔ (مکاشفہ 22:15) ایمانداروں کے لئے یہ ہدایت ہے کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس رکھیں چاہے انہیں نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے ( یشوع 9؛ زبور 15:4) بلکہ بائبل کا خدا ، یہواہ فرماتا ہے ہے کہ ، ' وہ انسان نہیں کہ جھوٹ بولے ' ( گنتی 23:9)۔ بائبل مقدس جنابِ مسیح کو سچ کے طور پر پیش کرتی ہے، (انجیل بمطابق یوحنا 14:6)، روح القدس کو سچ کیطور پر پیش کرتی ہے اور خدا باپ میں خفیف سا بھی مکر کا شائبہ موجود ہے ( یعقوب کا خط 1:17؛ 2۔ سیموئیل 7:28؛ زبور 31:5) جنابِ مسیح سچ ہیں، ایمانداروں کو خدا تعالیٰ کی مانند پاکباز ہونا مقصود ہے ( احبار 19:2؛ 1۔ پطرس 1:16، وغیرہ)

عہد نامہ جدید کے دور میں خدا تعالی نے کچھ لوگوں کی ہلاکت کے ذریعے سے گناہ اور جھوٹ کی سنگینی کو اجاگر کیا۔ (رسولوں کے اعمال) بائبل برملا اعلان کرتی ہے:

' اور سب جھوٹوں کا حصہ آگ اور گندھک سے جلنے والی جھیل میں ہوگا ۔' (مکاشفہ 21:8)

جبکہ اسلام میں اگر آپ گناہ نہ کریں تو اللہ آپ کو ہلاک کردیگا اور آپ کی جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئیگا جو گناہ کرسکیں۔ ( صحیح مسلم، حدیث نمبر 6622اور 6621، کتاب نمبر 37)

ہم نے یہ پیغام آپ تک اس لئے پہنچایا ہے کہ ہمیں آپ سے محبت ہے اور ہماری خواہش ہے کہ آپ سچ کو جانیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کا دل، دماغ اور جسم، خداوند مسیح کے توسط سے دھوئے جاسکتے ہیں ۔ مذید معلومعات کے لئے ہمارا کتابچہ بعنوان  ' اسلام میں نجات' پڑھئیے۔

اب آپ کے لئے موقعہ ہے کہ آپ سچ کی تلاش کیجیئے کیونکہ خدا تعالی نے آپ کو اس نعمت سے نوازا ہے ۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, اسلام, مُحمد, غلط فہمیاں, تفسیر القران | Tags: | Comments (0) | View Count: (69615)
Comment function is not open
English Blog