en-USur-PK
  |  
29

تجسد کی موزونیت

posted on
تجسد کی موزونیت

Pertinence of Incarnation

Allama Paul Ernest

تجسد کی موزونیت

ہم آدمیوں سے ہمیشہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ سمجھ سے کام کرتے ہیں یعنی اپنی ذات کی مطابقت سے کام کرتے ہیں۔ انسانی ذات سمجھ دار ہے اس لئے انسان کام کرتے وقت اپنی ذات کے اس خاصہ کے مطابق کام کرتا ہے یعنی سمجھ سے کام کرتا ہے۔ یعنی سمجھ سے کام کرتا ہے ۔ آدمی سے بے سمجھی کے کاموں کا ہونا عام طو ر پر ناموافق امر خیال کیا جاتا ہے کیونکہ ایسا امر غیر ذاتی ہے یعنی ذات کے خاصہ کے الٹ ہے ۔ ذات ہو تو سمجھدار  اور کام کرے بے سمجھی کے۔ ایسا کرنا اس ذات کے سمجھدار ہونے کے خاصہ سے ناموافق ہے۔ ایسا ہونا بلا دلیل ہے یعنی اس کے لئے دلیل نہیں دی جاسکتی کہ سمجھدار بے سمجھی کا کام کرے۔ آدمی آدمی کی طرح کام کرتا ہے انسان بعض کام آسانی سے اور فطرتاً کرسکتا ہے  مثلاً وہ خیال کرتاہے ہنستا ہے اور محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اسی قسم کی ہستی ہے اس کا وجود ایسا ہی ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تجسد کا سبب خدا ہے ۔ وہی ہے جو متجسد ہوا۔ تجسد کے تناسب کی حد بیان کرنے میں یعنی یہ کہ دوسرے حقائق میں اس کا مقام کیا ہے یہ پہلی حقیقت جس کا فیصلہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اس بھید میں اور خود خدا میں کیا تعلق ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ ہم یہ دریافت کررہے ہیں کہ خدا نے آدمی بننا کیوں انتخاب کیا؟ خدا کی ذات میں وہ کیا بات ہے جو خدا کے متجسد ہونے کو موزوں بات بنا دیتی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی خارجی امر یا بیرونی بات خدا کو اس بات کے لئے یا کسی اور بات کو انتخاب کرنے کے لئے حرکت میں نہیں لاسکتی  کام کرنے والوں میں سے خدا سب سے زیادہ آزاد ہے اور اس کے سب کام محض ایک بات کے ماتحت ہوتی ہے اور وہ واحد امر اس کی اپنی لامحدود بھلائی ہے۔ پس تجسد اور تجسد چاہنے والے کے تعلق کو اس کڑی کے ذریعے سے بتایا جاسکتا ہے جو تجسد اور خدا کی لامحدود بھلائی کے درمیان ہے۔

خدا نہ تو آدمی کی طرح کام کرتا ہے اور نہ فرشتے کی طرح۔ جو کچھ وہ ہے وہ اسی کے مطابق کام کرتا ہے وہ خدا ہے اور خدا کی طرح کام کرتا ہے ۔ کیا یہ موزوں اور مناسب تھا کہ خدا متجسد ہو؟ اس کا جواب اس بات پر موقوف ہے کہ خدا کس قسم اور کیسا وجود ہے وہ بذاتہ بھلائی ہے ۔ جب بھلائی اپنی خاصیت کے مطابق کام کرتی ہے تو یہ اپنے آپ کو پھیلاتی ہے۔ یہ اپنا آپ اوروں کودیتی ہے جیسے کہ کسی پاک کی پاکیزگی جو روحانی بھلائی ہے وہ پھیل کر اوروں کو بھی اپنے نمونے کے باعث پاک بناتی ہے ۔ پاک پاکیزگی کو نمونہ دیتا ہے اور دوسرا اس سے پاکیزگی کا نمونہ لیکر خود بھی پاک بنتا ہے۔ اور یوں پک کو پاکیزگی اور دل کو پاک کرتی ہے۔

خدا جو لامحدود بھلائی ہے اس میں بھلائی کا ایک تو وہ پھیلاؤ ہے جو لازمی اور ضروری ہے اور ایک اور پھیلاؤ ہے جو آزاد ہے وہ لازمی اور ضروری نہیں ہے یعنی وہ محض خدا کی مرضی پر موقوف ہے۔ خدا کی لامحدود بھلائی کا پھیلاؤ جو خودبخود اور لازمی طور پر تین الہٰی اقانیم کے رشتوں میں خدا کے باطن میں ہوتا ہے یعنی خدا جو محبت ہے اس کی لامحدود محبت تثلیت کے کمالات میں اپنی لامحدود تسکین اور اطمینان پاتی ہے اور اسے اس سے زیادہ وسعت اور پھیلاؤ کی ضرورت نہیں ۔ تاہم الہٰی بھلائی نے وہیں ٹھہرجانا پسند نہ کیا بلکہ اس نے آزادی سے یہ پسند کیا کہ وہ الوہیت کے علاوہ خدا کے مخلوقوں میں بھی منتقل ہو اور جب خدا نے اس بات کو چن لیا تو موزوں اور مناسب یہ تھا کہ خدا جو سب سے اعلیٰ بھلائی ہے وہ اپنا آپ منتقل کرنے کاسبب سب سے اعلیٰ طریقہ جس کی الہٰی حکمت تجویز کرسکتی تھی وہ یہ تھا کہ خدا ایک مخلوق کو اپنے ساتھ متحد کر کے اسے اپنے ساتھ ہم وجود بنا لے پس تجسد اسی قسم کا انتقال یا الہٰی بھلائی کی توسیع ہے۔ لامحدود قدرت کے لئے بھی اس سے بڑا طریقہ ناممکن ہے پس تجسد خدا کی ذات ذات کے عین مطابق ہے ۔ خدا کی قدرت کے سب سے بڑے کام دو طرح کے ہیں۔ ایک تو غیر موجود کو موجود کرنا یعنی نیست کو ہست کرنا ہے۔ خدا نے کائنات کو نیستی سے پیدا کیا اور خدا کی قدرت کا ایک اور بڑا کام کسی موجود مخلوق وجود کو خدا کے ساتھ ہم وجود کرنا ہے ۔ اس صورت میں دو وجودوں کو متحد کرکے ہم وجود کرنا ہے پس خدا کی قدرت کے ان کاموں سے بڑا کام نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ یہ خدا کی قدرت کے سب سے بڑے کام ہیں ۔ خدا کی قدرت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ مسیح کی الوہیت کو اس کی انسانیت کے ساتھ متحد کر کے انہیں ہم وجود کردیا اور یہ اس لئے وقوع میں آیا کیونکہ خدا بھلائی ہے اور لامحدود بھلائی ہے۔

ہم مندرجہ ذیل دلیل کے ذریعے سے اس نتیجے تک زیادہ سائنٹفک محققانہ اور علمی طور پر پہنچ سکتے ہیں ۔  جو کچھ بھلائی کی خصلت خاصیت  حقیقت اور ماہیت سے تعلق رکھتا ہے و ہ خد اکے لئے موزوں ہے۔

بھلائی کی خاص خاصیت یہ ہے کہ اپنے آپ کو دوسروں میں یہ منتقل کرے اس لئے سب سے اعلیٰ بھلائی کے لئے یہ موزوں ہے کہ یہ اپنے آپ کو سب سے اعلیٰ طور پر دوسروں میں منتقل کرے۔ دوسروں میں خدا کا سب سے اعلیٰ اور سب سے بڑا انتقال تجسد ہے اس لئے تجسد خدا کے لئے موزوں ہے۔ خدا کی ذات اور صفات کے علم الہٰی سے اس دعویٰ کی صداقت ظاہے ہے کہ جو کچھ بھلائی کی خاصیت سے تعلق رکھتا ہے وہ خدا کے لئے موزوں ہے ۔ خدا کامل طور پر موجود رہنے والی ہستی ہے اس میں سب کچھ واقعی اور حقیقی ہے اس میں ناکاملیت کا سایہ تک نہیں ۔ وہ عین بھلائی ہے وہ لامحدود طور پر مرغوب ہے کیونکہ وہ لامحدود طور پر کامل ہے جس قدر کوئی چیز عمدہ خوبصورت اور اچھی ہوتی ہے اسی قدر وہ دلپسند اور قابل ِ تمنا ہوتی ہے ۔ خدا بے حد عمدہ اور اچھا ہے اس لئے وہ بے حد دلپسند قابلِ تمنا اور مرغوب ہے مگر جو چیز اچھی اور بھلی ہو وہ قدرتی طور پر دوسروں کو کھینچتی ہے تا کہ وہ اس کے کمال میں حصہ دار ہوں یعنی تاک ہوہ بھی اس کے کمال میں اس سے حاصل کریں اور ایسا کرنے سے وہ اپنی بھلائی میں سے ان کو بھلائی دیتی ہے مثلاً سیب آدمیوں ، پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں کو کھینچتا ہے۔ کیونکہ اس میں مرغوب اور دلپسند کمال پایا جاتا ہے ظاہر ہے کہ اس کی اچھائی اس کشش کی قوت میں ہے خواہ وہ حقیقت میں کھایا جائے خواہ نہ کھایا جائے مگر آدمیوں پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں کو جو اس میں کھینچنے کی قوت پائی جاتی ہے یہ قوت ہی اس کی اچھائی ہے اور اگر وہ نہ کھایا جائے  تو اس سے اس کا کمال نہ گھٹتا ہے اور نہ بڑھتا ہے اس میں مرغوب اور دلپسند ہونے کی قوت موجود ہے۔ اور یہی اس کی اچھائی ہے ۔ اگر کوئی اسے کھائے تو وہ کھانے والے کی خوشی کو بہت بڑھا دیگا۔ لیکن اگر اسے کوئی نہ کھائے تو پھر بھی اس میں اچھائی کا وہ کمال موجود ہوتا ہے پس اچھائی اور بھلائی کا واقعی انتقال یعنی دوسروں میں اچھائی اور بھلائی پیدا کرنا بھلائی کی خاصیت کے عین مطابق ہے لیکن اس اشتراک اور شمولیت تک لے جانا ضرور ی نہیں اور اس حقیقی اشتراک اور اشتمال کے بغیر بھی اس کی بنیادی اور اصلی کشش اس میں پائی جاتی ہے اور وہ بنیادی کشش اس کی ذات کی اچھائی ہے۔ اس کی ذات اچھی ہے اس لئے وہ قابل کشش ہے اور دلکش ہے۔ بھلائی اور اچھائی اپنی ذات میں قابل اشتراک ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ دوسرے اس میں ضرور شریک ہوں چونکہ خدا سب سے اعلیٰ اچھائی ہے اس لئے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کا انتقال بھی سب سے اعلیٰ ہو۔ اگر وہ اپنے آپ کو یا اپنی اچھائی کو سب سے اعلیٰ طور پر منتقل کرے تو یہ اس کی ذات کے عین مطابق ہونا چاہئے۔ کیا وہ ایسے کرتا ہے؟ عقل جس نے ہمیں یہاں تک پہنچا یا ہے اسے یہاں پہنچ کر ٹھہر جانا چاہئے یہاں ایمان ہماری عقل کی رہنمائی کے لئے ہماری دستگیری کرتا ہے۔ ایمان سکھاتا ہے کہ خدا کا علم جو اس کے اپنے بارے میں ہے اور اس کی محبت جو اس کے اپنے لئے ہے وہ  الہٰی اچھائی کے عمیق اور برابر کے حصول میں واقع ہوتے ہیں اور الہٰی اچھائی ہی الہٰی ذات ہے پس علم الہٰی اور حبِ الہٰی کو خوبی الہٰی حاصل ہوتی ہے یعنی ذات الہٰی حاصل ہوتی ہے۔  مبارک تثلیث باپ بیٹے اور روح القدس تین الہٰی اقانیم کو شامل کرتی ہے جو ایکدوسرے سے فی الحقیقت ممیز ہیں مگر تاہم ہر ایک پورا اور برابر خدا ہے ۔ ان میں الوہیت کے اندر الہٰی اچھائی کا بے حد اعلیٰ اور باطنی اور ضروری  انتقال پایا جاتا ہے۔ یہ بھلائی کی توسیع اور اس کے پھیلاؤ کا بہترین نمونہ ہے کیا الہٰی بھلائی کا اسی طرح کا انتقال دوسروں کے لئے بھی ہے ؟ عقل کہتی ہے کہ خدا کو ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں یعنی خدا کو اس طور پر اپنا آپ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔  ایسا کرنے سے خدا میں جو کمال اور اچھائی موجود ہے اس میں کچھ بھی افزونی نہیں ہوتی کیونکہ اس میں لامحدود کمال اور لامحدود اچھائی پائی جاتی ہے ۔ خدا نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور اسے اپنی اچھائی بخشی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اپنی اچھائی اور بھلائی دیتا ہے۔ اپنی بیحد محبت اور بے حد فیاضی سے وہ نہایت آزادی سے دوسروں کو اپنی بھلائی کا فیض پہنچاتا ہے۔ ایمان اور مکاشفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو سب سے اعلیٰ طور پر بھجی اپنی اچھائی منتقل کرتا ہے اس سب سے اعلیٰ طور پر اچھائی منتقل کرن کی صورت میں متجسد ہے۔ اور خدا نے اپنی اچھائی اس انتہائی صورت میں بھی منتقل کی ہے کیونکہ مکاشفہ فرماتا ہے کہ  ’ کلمہ متجسد ہوا‘ ۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (19147)
Comment function is not open
English Blog