en-USur-PK
  |  
30

کیا اسلام دینِ فطرت ہوسکتا ہے؟

posted on
کیا اسلام دینِ فطرت ہوسکتا ہے؟

کیا اسلام دینِ فطرت ہوسکتا ہے؟

Can Islam Satisfy Human Instincts?

اسلامی نقطہء نظر سے لفظ دین چار بنیادی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے (۱) اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اس کا اقتدار اعلیٰ(۲) اس حاکمیت کے مقابلے میں تسلیم و اطاعت(۳)وہ مکمل نطام فکرو عمل جو اس حاکمیت کے زیر اثر ہے(۴) جزا و سزا جو اقتدار اعلیٰ کی طرف سے اس نطام کی وفاداری و اطاعت یا اس سے سرکشی و بغاوت کے صلے میں دی جائے۔ (اسلامی نظریہ ء حیات، صحفہ ۲، خورشید احمد)

اسی طرح اسلام کے لغوی معنی اطاعت ، جھکنے ، سر ِ تسلیم خم کرنے اور مکمل سپردگی کے ہیں ۔ اس کے علاوہ اسلام ، امن سلامتی اور آشتی کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔دوسرے لفظوں میں جناب خورشید احمد کے مطابق خدا کے آگے جھکنے اور اسکی اطاعت کرنے کا نام اسلام ہے۔  (اسلامی نظریہء حیات، صحفہ ۳)، جناب موصوف اپنی کتاب میں مزید کچھ صحفات ان سوالوں سے مزین کرتے ہیں جو مغرب کے مشہور مفکرین نے سوچے اور دنیا تک پہنچائے، اور پھر اسمیں حسب ِ عادتِ مسلمین اپنی رائے پیش کرتے ہیں کہ ایسے تمام سوالوں کا جواب صرف دینِ اسلام ہی دے سکتا ہے ، صحفہ نمبر ۱۰ پہ فرماتے ہیں کہ،  "اب دنیا کو ایک ایسے نظرئیے ، ایک ایسی آئیڈیولوجی کی ضرورت ہے جو کثرت کو وحدت میں بدل اور ان نئے حالات میں انسان کو رہنے کا سلیقہ سکھائے

مسلمانوں کے نزدیک دین اسلام ان تمام سوالوں کا جواب ہے جو اہل مغرب نے سوچے، کیا خوب فرمایا جناب نے! آپ فرماتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ، جو ایک طرف زندگی کے مسائل کا ایسا معقول اور سائینٹیفک حل پیش کرتا ہے جو فکر و نظر کی ہر الجھن کو دور اور ہر عقدے کو حل کردیتا ہے اور دوسری طرف تہذیبی اور تمدنی زندگی کے لئے ایک مفصل  لائحہ عمل دیتا ہے جو انسانی معاشرے کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔لیکن ہم اہل مغرب کی جانب سے ایک سوال ان کے ساتھ ساتھ تمام اہل فکر مسلمین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں کہ  " جامع مذہب کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ اس میں خدا کا تصور اعلیٰ ترین ہو جس کو سب لوگوں کی ضیمریں مان سکیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا اخلاقی نصب العین اعلیٰ ترین ہو‘ ( ڈاکٹر ریشڈال)  لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری ضمیریں اس قابل ہیں کہ الٰہی بھید کو جان سکیں ، اس پاک ذات کے تمام احکامات پر بلا چون و چرا عمل پیرا ہوسکیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ عبدالکریم الجیلی  فرماتے ہیں ، ’ فطرت الٰہی اوپر کی جانب پرواز کرتی ہے اور فطرت انسانی نیچے کی طرف مائل ہوتی ہے‘ ۔ ( خدا فلسفیوں کی نظر میں ، صحفہ ۲۹۵) ، مزید یہ کہ انسانی فطرت ایک جیسی نہیں ہوتی بلکہ مختلف ہوتی ہے۔ہرڈر  وہ پہلا مفکر ہے جسنے اقوام عالم کو یہ بآور کروایا کہ مختلف نسلوں اور قبیلوں میں منقسم انسان، ایک جیسی فطرت کے حامل نہیں ہوتا۔  (تاریخ اور فلسفہ تاریخ، صحفہ نمبر ، ۱۳۳)

ایسے سوالوں کے پیش نظر ہم یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کہ کیا اسلام دین فطرت ہو سکتا ہے؟ ،  لیکن کیا کسی مسلمان نے یہ سوچنا گوارا کیاہے کہ ترقی یافتہ قومیں اور پست حال قومیں ایک سی فطرت رکھتی ہیں؟ کیا ہم فطرت کے اصولوں کو بغیر چوں و چراں قبول کرلیتے ہیں ؟ ایسے تمام سوالوں کا جواب تحقیق ہی کی روشنی میں جب ہم اسلام کے دعوؤں کی تحقیق کرتے ہیں تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے پاس صرف دعوؤں کے علاوہ کچھ بھی نہیں لیکن کیا کہیئے کہ دعوؤں سے کچھ ثابت نہیں ہوتا، اہل فکر آپ حضرات کی حالتِ گزشتہ سے لیکر موجودہ حالت تک کوئی تبدیلی نہیں دیکھتے۔ اور نہ ہی آپ کا کوئی تابناک مستقبل نظر آتا ہے۔ آپ سائنس کی بات کرتے ہیں ، جبکہ انسانی فطرت کو سمجھنے کے لئے متفقہ طور پر تاریخ کو بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ فطرت لاتبدیل ہے، لیکن انسانی زندگی تغیرو تبدل کے بغیر ممکن نہیں۔ طلوع سورج کے وقت سورج کی تپش ایک فطرتی عمل ہے لیکن خلیجی ممالک میں لوگ اس فطرتی عمل کے برخلاف اب ایرکنڈشینڈ کا استعمال کرتے ہیں، ان کے گھروں سے لیکر شاپنگ مالز تک لوگ فطرت کے اصولوں کے خلاف لڑرہے ہیں ، اسے شکست دے رہے ہیں۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ اسلام دین فطرت نہیں !

Posted in: اسلام, مُحمد, غلط فہمیاں | Tags: | Comments (0) | View Count: (21628)
Comment function is not open
English Blog