en-USur-PK
  |  
17

ذاکر نائیک کے دعوؤں کی تردید

posted on
ذاکر نائیک کے دعوؤں کی تردید

The Claims of Zakir Naik Refuted

ذاکر نائیک کے دعوؤں کی تردید

بلاشبہ ذاکر نائیک کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ مسلمان مفکرین کی فہرست میں جو مقام ذاکر نائیک کو حاصل ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں۔ انکے چاہنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، لوگ انہیں دیداد پلس کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ شہرت جو انہیں آج حاصل ہوئی ہے وہ شاید انہیں کبھی بھی میسر نہ آتی اگر وہ اپنے پیشے سے وابستہ رہتے، جناب ذاکر نائیک پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہیں۔ ان کے پاس کوئی تھیالوجیکل ڈگری نہیں ، اسی لیے ان کے چاہنے والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں دوسروں کے دین کیا خود اپنے دین کی زبوں حالی کا کوئی اندازہ نہیں۔

اپنے اس آرٹیکل میں ہماری کوشش یہ ہو گی کہ ہم ذاکر نائیک سے خائف یا انکے مداحوں کو اس بات سے آگاہ کرسکیں کہ ذاکر نائیک کسطرح سے اپنے مداحوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے انہیں تاریخی حقائق کی دنیا سے بہت دور لیجاتے ہیں ۔ اور کس طرح سے ان سوالوں سے اجتناب کرتے ہیں جو ان کے تمام دعوؤں کی تردید کرتے ہیں جو خود اہل اسلام کے ابتدائی دنوں میں صحابہ اکرام کو پریشان کرتے رہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اصل موضوع کی طرف آئیں ، ہم جناب ذاکر نائیک سے صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ خدارا کسی معروف اسکول آف تھاٹ کی کوئی سند لے آئیے تاکہ آپکی کسی آراء کو قدر کی نگاہ سے دیکھ سکیں ، کیونکہ جس ذات سے متاثر ہو کر آپنے مباحثہ کی دنیا میں قدم مارنے کی جراتء کی ہے ، و ہ ذات (احمد دیدات) اپنے ایک مناظرے میں خود یہ کہہ چکے کہ وہ صرف چھٹی جماعت تک ہی پڑھ سکے تھے۔ کہاں آپ ایک ڈاکٹر اور کہاں آپکے استاد جنہیں دسویں جماعت بھی ختم کرنا نصیب نہ ہوا۔ ہم آپکی ناقص عقل پر صرف ماتم ہی کرسکتے ہیں۔

زید بن ثابت ؓایک ایسا کردار ہے جس کے ناتواں کندھوں پر یہ بھاری بوجھ ڈالا گیا کہ وہ قرآن کریم کو جمع کریں۔ لیکن یہ زید بن ثابت ہیں کون؟ اس خطے میں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے کتنے مسلمان ایسے ہیں جو کاتب ِ وحی جناب بن ثابت ؓ کے بارے میں وہ سب کچھ جانتے ہیں جو تاریخی اسلامی کتب میں موجود ہے؟ آئیے ایک سروے کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس مضمون کے حوالے سے ہمارے پاس کیا تواریخی شواہد موجود ہیں؟

زید بن ثابتؓ: زید بن ثابتؓ کی نیت پر نہ پہلے کسی کو شک تھا نہ آج ہے ۔ لیکن انکو ؓ یہ قلمدان سونپنا کچھ عجیب سا لگتا ہے ، مثال کیطور پر بقول جناب اکبر مسیح صاحب، وہ ایک ایسے شخص تھے جو بعد ہجرت مدینہ میں مسلمان ہوئے اور تیرہ ، چودہ سال تک جب حضرت مکہ میں تشریف فرما تھے، بالکل کتابت وحی سے محروم اور قرآن و ایمان سے نابلد تھے، پس قرآن دانی میں ان کی معلومعات بہت محدود تھی، (تاویل القران، صحفہ ۹۹)۔ شاید نہیں بالکل یقنناً جب انہیںؓ یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی تو وہ بے اختیا ر کہہ اٹھے  [ واللہ مجھ کو ایک پہاڑ اس کی جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دینے کا حکم دیتے تو یہ بات مجھ پر اتنی گراں نہ ہوتی جس قدر قرآن کے جمع کرنے کا حکم مجھ پر شاق گزرا…] مزید برآں صحیح مسلم اور صحیح بخاری ، عبداللہ بن عمر سے مروی ایک حدیث کا ذکر کرتے ہوئے اس موضوع پر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ سیکھو قرآن کو چار شخصوں سے یعنی عبداللہ بن مسعود ، سالم مولی ابن حزیفہ و ابی بن کعب اور معاذ بن جبل سے… ان چاروں میں سے حضرت سالم نے جنگ یمامہ میں وفات پائی، اور حضرت معاذ بن جبل نے حضرت عمر کے دور ِ خلافت میں جہانِ فانی سے کوچ فرمایا۔ لیکن اس کے باوجود حضرت عثمان ؓ کے دور حکومت میں انہیں یہ سعادت حاصل رہی کہ اگر وہ چاہتے تو ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود جیسے ماہرین سے رجوع کرسکتے تھے۔ لیکن تاریخ ایکبار پھر بجائے کہ جناب ذاکر نائیک کی تائید کرے، ہماری تحقیق کے آگے سر تسلیم خم ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے  ۔ تاریخ کے جھرونکوں میں جھانکنے سے ہمیں یہ اندوہناک خبر ملتی ہے کہ حضرت عثمانؓ اور ابی بن کعب اور عبداللہ ابن مسعود کے درمیان اس حوالے سے چپقلش باقی رہی۔ جناب علامہ اکبر مسیح صاحب اس موقع پر رقمطراز ہیں اور فرماتے ہیں کہ [ عبداللہ بن مسعود نے اس بات کو مکروہ سمجھا کہ زید قرآن کی کتابت پر مامور ہو ں اور بولے، اے مسلمانو! کے گھور اندھیرا ہے کہ مجھ سا شخص تو قرآن لکھنے سے معزول کیا جائے اور اس پر ایک ایسا شخص مامور ہو کہ بخداجب میں مسلمان ہوچکا تھا تو وہ اْس وقت ایک کافر کی پشت میں تھا… اسی واسطے عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ اے اہل عراق چھپا ڈالو وہ مصحف جو تمہارے پاس ہیں اور ان کو مقفل کر ڈالو۔] جب بھی لوگ قرآن لیکر زید بن ثابت کے پاس آتے تو وہ ؓ بغیر دو معتبر گواہوں کے اْ سے نہ لکھتے ، لیکن ایک واقعہ ایسا بھی ہے کہ صرف حضرت عمرؓ کے کہنے پر اس اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جناب زید بن ثابتؓ نے سورۃ براتء کا خاتمہ اکیلے ابی خزیمہ بن ثابت کی شہادت پر لکھ ڈالا، کیونکہ جناب حضرت عمرؓ نے یہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابی خزیمہ کی شہادت دو گواہوں کے برابر بنائی ہے۔ حضرت عمر ؓ کے جاہ و جلال اور عتاب کا نشانہ بننے سے بہتر تھا کہ ان سنی شہادت پریقین کرلیا جائے ورنہ شاید زید بن ثابت کی بھی وہی درگت بنتی جو ہشام بن حکیم کی ہوئی، عبدالرحمن بن عبدالقاری سے مروی ہے کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ کو یہ کہتے سنا کہ میں نے ہشام بن حکیم کو سورۃ فرقان اور لوگوں سے خلاف پڑھتے سنا اور رسول اللہ مجھ کو یہ سورۃ پڑھا چکے تھے سو میں قریب تھا کہ اْ س سے بھڑ جاؤں مگر میں نے اْسے مہلت دی یہاں تک کہ وہ پڑھ چکا پھر میں اس کی چادر اس کے گلے میں ڈالکر اْس کو رسول اللہ تک کھینچتا لایا… (فضیلتہ القران ، مشکواۃ)اور پھر ایک مرتبہ ابوبکر ؓ کے سامنے بھی دبے دبے لفظوں میں قرآن جمع کرنیکی مہم کی مخالفت کی لیکن حضرت عمر ؓ کے ہوتے ہوئے بھلا یہ کیسے مکمن تھا، کیونکہ لکھا ہے کہ زید بن ثابت نے فرمایا [ تم دونوں صاحب وہ کام کیوں کرتے ہو جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا] بہرحال اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک موقع پر جب حضرت عمر ؓ نے بنا کسی گواہ کہ آیتہ رجم پیش کی تو اسے نہیںلکھا۔ تو اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ ہمیں ایکبار پھر تاریخ سے رجوع کرنا چاہئے کیونکہ  W.H.Gairdner, Sikandar Abdul Maish, Salah Abdul Hadنے اپنی مشترکہ تصنیف بنام آیت الرجم میں لکھا ہے کہ بہتیرے صحابیوں کو یہ آیت معلوم تھی ، اور یہ آیت منسوخ شدہ نہیں بلکہ ان آیات میں سے ہے جو بھلادی گئی۔ (صحفہ ۴)  

Posted in: اسلام, مُحمد, غلط فہمیاں, تفسیر القران | Tags: | Comments (0) | View Count: (21552)
Comment function is not open
English Blog