en-USur-PK
  |  
14

سیدنا عیسیٰ مسیح اور بنی آدم

posted on
سیدنا عیسیٰ مسیح اور بنی آدم

JESUS AND MANKIND

BY PROF: LOOTFY LEVONIAN

TRANSLATED BY

REV.S.N.TALIBUDIN B.A

 

سیدنا عیسیٰ مسیح اور بنی آدم

 

پروفیسر:لطیفی لیونیان

مترجم

علامہ ایس ۔این طالب الدین صاحب بی ۔ اے

انسانوں کے متعلق سیدنا مسیح کا ایمان:

                        بنی آدم میں جتنے اُستاد ہوگزرے ہیں ۔اُن میں سے کسی نے بھی نہ تو سیدنا مسیح کی طرح اپنے صحابہ کرام سے قریبی ذاتی تعلقات رکھے اورنہ ہی کسی نے ہم جنسوں کے ہاتھ سے اُس کی طرح تلخیاں برداشت کیں باوجود اس کے جوبلند اورپاکیزہ تصور انسان کا سیدنا مسیح نے قائم کیا وہ کسی اورنے نہیں کیا۔ سیدنا مسیح نے ہر قسم کے انسانوں سے ربط ضبط رکھا۔ بوڑھیوں سے بھی۔ جوانوں سے بھی ۔ عالیٰ قدر لوگوں سے بھی اور ادنیٰ حیثیت کے لوگوں سے بھی ۔ متمول اور صاحبِ ثروت لوگوں سے اور عیسر اور مفلوک الحال لوگوں سے بھی۔ وہ ان کی آزمائشوں اور بدبختیوں میں برابر کا شریک ہوا۔ وہ اِن میں اِس قدر گھل مل گیا اور ایسا شیرو وشکر ہواکہ اُس نے اپنا نام ابن آدم رکھ لیا اگر   اِس دُنیا میں کسی شخص نے انسانوں پر بھروسہ رکھ کر مایوسیوں کا منہ دیکھا ہے تووہ سیدنا مسیح ہے تاہم اُس نے انسانوں میں شرافت اورنجابت کی صلاحیت پنہاں دیکھی اوران پر فدا ہوگیا۔یہاں تک کہ اپنی جان عزیز تک نثار کردی۔ اس اعتبار سے سیدنا مسیح ایک لاثانی معلم ہیں۔ سیدنا مسیح کوجو انسان کے متعلق اس قدر قوی ایمان حاصل تھا اس کا راز کیا تھا۔

          ہمارے تصورات ہمارے نقطہ ہائے نگاہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اشیاء کو مختلف زاویوں سے دیکھا جاتاہے ۔ جس سے مختلف اور متفاوت تصورات حاصل ہوتے ہیں۔ چنانچہ انسان کے متعلق ہمارے متفاوت تصورات کی یہی بنیاد ہے۔اگرکوئی شخص انسان کو اس کی بدی اورخطا کے رنگ میں دیکھے اورنیکی اورراستی کی پیروی میں جس شکست فاش کا اس کو منہ دیکھنا پڑتاہے اس پر نگاہ کرے تووہ یقیناً چلا اٹھیگا کہ" جس بدی کا میں ارادہ نہیں کرتا وہ مجھ سے سرزد ہوجاتی ہے اورجس نیکی کا قصدکرتاہوں وہ مجھ سے بن نہیں پڑتی۔ میں کیسا کم بخت انسان ہوں"۔

          چنانچہ کئی ایک معلمین اورمصلحین نے انسان کو اسی طریق پر دیکھا ہے اورانسان اوراس کے حشر کے متعلق مایوسی کااظہار کیاہے۔ مگر سیدنا مسیح کا زاویہ نگاہ بالکل جُدا اورمختلف تھا۔ سیدنا مسیح نے انسان کو انسان کے نقطہ نگاہ سے نہیں بلکہ خدا کے زاویہ نظر سے دیکھا یقیناً وہ انسان کی شکست اوربدی سے کماحقہ آگاہ تھے۔وہ جانتے تھے۔ کہ انسان کے دل سے کیا کچھ برآمد ہوتاہے۔مگر آپ نے ان چیزوں کے پیش نظر انسان کونہیں دیکھا ۔ بلکہ خدا کی نظر سے اوراُس کے مقصد کوذہن میں رکھ کر انسان کودیکھا۔ بالفاظ دیگر آپ نے انسان کے عمل اور کردار کی اس قدر پرواہ نہیں کی جس قدر اس امر کو نگاہ میں رکھا کہ خدا انسان کے واسطے کیا کچھ کررہاہے ۔ اورانسان کے لئے اُس کا ارادہ اورمقصد کیا ہے۔ خدا نے انسان کو اپنی شکل پر پیدا کیا۔ یعنی انسان میں اپنا کلام سننے اور اُس کے سمجھنے اوراطاعت کرنے کی اہلیت رکھی۔ اورسیرت میں اپنی مانند بننے کے امکانات عطا کئے۔ انسان میں خدا شناسی کی اورخدا کی مقاربت اورمصاحبت کی اوراُس کے عالمگیر کنبہ کے فرد بننے کی استعدداد ہے۔ خدا نے انسان کو اپنے ہی لئے بنایا۔ اوراس کی علت غائی یہ ہے کہ کل انسان اُس کے فرزند بنیں۔چنانچہ انسانوں کے ساتھ ربط ضبط رکھنے میں سیدنا مسیح کے ذہن میں یہ اساسی قائلیت نمایاں طورپر موجود تھی۔ ہردرجہ اورحیثیت کے انسانوں میں سیدنا مسیح نے خدا کی وہی ازلی صورت دیکطی اور براہ راست اُسی کی طرف اپنا روئے سخن کیا۔ اسی لئے سیدنا مسیح نے انسان کو گرانقدار شخصیت تسلیم کیا۔آپ کے نزدیک انسان کی قدروقیمت کل دنیا سے بڑھ کر ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا تھاکہ " اگرآدمی ساری دنیا حاصل کرے اوراپنی جان کھودے تواُسے کیا حاصل ہوگا"۔ چونکہ انسان میں روح ہے ۔انسان انمول رتن ہے۔

شخصیت کی پاکیزگی:

                        اس اعتبار سے سیدنا مسیح دنیا کے فیلسوفوں سے اساسی طورپر اختلاف رکھتے ہیں۔ فیلسوفوں کے نزدیک انسان نہیں بلکہ اُن کے تصورات اورخیالات پاکیزہ اور بیش قیمت تھے۔چنانچہ ارسطو اور افلاطون نے بے دھڑک انسانوں کومراتب اور جنسیت کے اعتبار سے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا۔ ارسطو جوعلم الاخلاق کا مُوجد اور بادا آدم ہے کہتاہے کہ "بعض انسان توپیدا ہی غلامی کے لئے ہوتےہیں اور افلاطون نے مشورہ دیا کہ سماجی اصلاح کی غرض سے عورتوں اور بچوں کو کوڑے کے حوالے کرنا چاہیے۔ مگر سیدنا مسیح نے اس طرح کا امتیاز کبھی نہ کیا۔آپ کے نزدیک ایک انسانی فردتقدس مآب اورگرانقدر تھا۔ خواہ وہ کسی رنگت حیثیت اورمرتبہ کا ہو۔ ہرمرد اورعورت میں ہر بوڑھے اورجوان میں اورہرامیر اور غریب میں روح ہے۔ لہذا ہر انسان بیش بہا ہے۔

بھٹکے ہوئے انسان:

          انسان کے باطن میں روح کا خزانہ ہے۔ مگروہ اِس سے لاپرواہ ہے۔ انسان روح کی تائید اورتاکید کوپسِ پشت ڈال دیتاہے۔اورحیوانوں کی سی زندگی بسرکرتاہے۔ بجائے روح پیروی کے وہ حیوانی جذبات کی اطاعت کرتاہے۔ اوراپنے ورثہ روحانی کوٹھکرادیتاہے۔ ایسے انسانوں کو سیدنا مسیح نے بھٹکے ہوئے انسان کہا۔ وضعدار خوش پوش اور خوش حیثیت انسانوں کے لئے یہ لفظ تلخ تھا اور سخت تھا مگر سیدنا مسیح نے جوکچھ کہا حق تھا۔ بیان حقیقت تھا۔ انسان اِن کھوئے ہوئے سکوں کی طرح ہے۔ جوقدروقیمت توبے شبہ رکھتے ہیں مگر خاک اوردھول میں ذلت اورخواری کی حالت میں پڑے ہیں۔ کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرح جو مفید اورقدروالی توہیں مگر پہاڑیوں اورجھاڑیوں میں آوارہ اور بھٹکی ہوئی ہیں۔ وہ کھوئے ہوئے بیٹے کی طرح ہیں جوباپ کا پیارا ہے۔ مگرگھر سے دُور بدمعاشوں کی صحبت میں رہتاہے۔

منافق:

            ایسے لوگوں کومنافق کہا گیا ہے۔ یہ گندم نما جوفروش اورظاہر پرست ہوتے ہیں۔ منافق اگرکبھی نیکی کا کوئی کام کرتا ہے تومحض ظاہر داری کی غرض سے کرتاہے ۔جب وہ خیرات اوردان کرتاہے توبازاروں اورمجلس گاہوں میں اس کا چرچا کرتا۔ اورڈھول پیٹتاہے۔ دُعا ونماز ایسی نمایاں جگہ پر کرتاہے جہاں پر آنے جانے والے کی آنکھ اُسے دیکھے اوراس کے تدین کے گیت گائے۔

          روزہ تورکھتاہے مگر عوام پر اپنی دینداری کا سکہ بٹھانے کے لئے چہرہ اُداس بناتاہے۔ سیدنا مسیح نے منافقت کے گناہ کے خلاف شدومد کے ساتھ اظہارِ کراہیت کیا۔ وہ ہر قماش کے انسانوں سے بلاتکلف ربط وضبط رکھتے تھے۔ مگر منافقین کی برداشت نہ کرسکتے تھے۔ ایسے لوگ دوکشتیوں پرپاؤں رکھتے ہیں۔ وہ دعوےٰ توراستی کا کرتے ہیں۔ مگر ارتکاب ناراستی کا کرتے ہیں۔ وہ ان قبروں کی مانند ہیں جن پر سفید پھیری ہوئی ہوتی ہے۔ حالانکہ ان کے اندر بدبودار لاشیں ہوتی ہیں اوران کا حال ان برتوں کا سا ہوتاہے۔ جن کو باہر سے توکسی دھوکر صاف اوردلکش بنادیاہو۔ مگراندر سے وہ بالکل غلیظ اورمکرو ہوں۔ اورجب تک ان کو اندر سے دھوکر صاف نہ کرلیا جائے وہ مزبلہ پر پھینکنے کے لائق ہوتے ہیں۔

خودپرست :

                        ایسے ہی خود پرست ہوتے ہیں۔ جنہیں اپنے ہی حلوے مانڈے سے غرض ہوتی ہے وہ دوسروں کی پرواہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو سیدنا مسیح نے نادان کہہ کرپکار ا۔ اس لئے کہ وہ اپنی روح کی احتیاج سے غافل رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کا کل مقصد تن پروری ہوتاہے۔ وہ ازلی اقدار سے غافل اور لاپرواہ رہتے ہیں۔ خود پرست کواپنی دلچسپیوں اور مفاد کے علاوہ کسی بات کی فکر نہیں ہوتی ۔ کہتے ہیں کہ علم الطیور کے عالم نے کل دنیا کی سیاحت کی مگر پرندوں کے سوا اس کی آنکھ نے اورکچھ بھی نہ دیکھا۔ وہ ساری دنیا میں گھومامگر اس کی آنکھ کوکچھ نہ سوجھا۔ نہ طلوع آفتاب کی دلکشی ۔ نہ پہاڑوں کا تجمل نہ جھیلوں کا حُسن ۔ اُس نے فقط پرندے ہی دیکھے۔ خود پرست کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔وہ اپنے مطلب کی چیزیں دیکھتا اورمطلب کی باتیں کرتاہے۔ راستی۔ نیکی اور محبت کا اس پر قطعاً   اثر نہیں ہوتا۔ ایسی حقیقیتوں کی نسبت وہ اندھا اوربہرہ ہوتاہے۔ وہ اپنے گھر میں من مانی کرتا اورہر ایک کی توجہ اورخدمت حاصل کرتاہے۔ مگرخود کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔نہ بال بچوں کی نہ نوکر چاکروں کی۔ اپنی بیماری میں نرسوں اور ڈاکٹروں سے خدمت لیتاہے۔ مگرکسی کا احسان نہیں مانتا۔ اگراس کے پاس دنیا کا مال ہوتاہے تووہ اپنے ہی مطلب کےلئے خرچ کرتاہے ۔ اگروہ صاحب فن ہوتاہے تو اپنے فنون کولپیٹ کر زمین میں دفن کردیتاہے۔ جہاں ان کو کیڑا اور زنگ برباد کردیتاہے۔

سیدنا مسیح بنی نوع انسان کو بچاتے ہیں:

            سیدنا مسیح اسی قسم کے لوگوں میں رہتا تھا۔ اس کے چاروں طرف کھوئے ہوئے انسان تھے۔ جوہمیشہ اپنی ہی خوشی اورمرضی پوری کرنے کی دھن میں رہتے تھے۔ مگر اپنی روح کے بارہ میں لاپرواہ تھے۔ اُس نے کہا بھی تھا کہ ابن آدم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈھنے اوربچانے آیا۔ ہم کو اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ سیدنا مسیح انسان کو قطعاً ناکارہ اور گئی گزری ہوئی چیز سمجھتے ہوں ۔ ہم اسے نامعقول اورپاجی انسانوں کو خدا کا کلام سننے کی دعوت دیتے اوراُس کا اثرقبول کرنے کی توقع کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔صرف خدا کی حضوری کا احساس اوراُس کی پاک محبت ہی خود پرستی کی نیند کےمزے لینے والے انسانوں کوبیدار کرسکتی اورحق کی پہچان کے لئے اُن کی آنکھوں کوکھول سکتی تھی۔چنانچہ سیدنا مسیح نے اُن کو کہا کہ آنکھیں کھولو اور اپنے چاروں طرف خدا کی پروردگاری کا جلوہ دیکھو۔ فضا کے پرندوں کودیکھو کہ خدا کس طرح اُن کی پرورش کرتاہے۔ اور جنگلی سوسن کوبھی دیکھو کہ خدا نے اُسے کس طرح لباس حُسن سے آراستہ کیاہے۔تمہاری قدرتو پرندوں سے بڑھ چڑھ کر ہے۔ کیا پیسے کی دوچڑیاں نہیں بکتی۔ تاہم ان میں سے ایک بھی تمہارے آسمانی باپ کی مرضی کے بغیر زمین پر نہیں گرتی۔ تمہاری قدر توچڑیوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ خدا ہی چڑیوں کو کھلاتا اور پھولوں کو پہناتا ہے۔ اور وہی تمہاری روزانہ ضروریات بہم پہنچاتاہے۔ وہ سب کی خبر لیتا ہے۔ نیکوں کی بھی۔ بدوں کوبھی۔ راست بازوں کی بھی اور ناراستوں کی بھی۔ وہ سب کے لئے سورج چمکاتا اوربارش برساتاہے۔

          سیدنا مسیح نے قریبی اورگہرے تعلقات کی بنا پر خدا کوباپ کہا۔ اس سے بہتر خطاب انسان کی لغت میں ہے بھی نہیں۔ خدا کل انسانوں کا باپ ہے۔ ہماری زندگی کے کل لوازمات مثلاً خوراک اورپوشاک وغیرہ اُس کی پدریت اور شفقت کے نشانات ہیں۔

          سیدنا مسیح نے انسانوں میں خدا کی ہستی اوراُس کی محبت کے احساس کوبطور ایک حقیقت کے بیدار کرنا چاہا۔ چنانچہ اُس نے بار بار اس کا تذکرہ کرنے سے ہی نہیں بلکہ اپنے نمونہ سے یہ حقیقت انسانوں کے ذہن نشین کی۔ سیدنا مسیح نے غریبوں اوربیماروں سے شفقت بھری اورپُرفضل باتیں کیں اور عملی ہمدردی دکھائی۔ پھر صلیب پر اپنی جان قربان کی اور تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھا۔ اس طرح خدا کی محبت اور شفقت انسانوں پر ظاہر کی۔ اُس کی کل زندگی خدا کی محبت کا انکشاف ۔ الوہیت کا ظہور اورکل نسل انسانی کے لئے اُس کے فضل کا اظہار تھی۔ جس کسی نے بھی اُس کو حقیقت بین نگاہوں سے دیکھا قائل ہوگیا۔

سیدنا مسیح زندگی کی راہ:

            سیدنا مسیح تارک الدنیا نہ تھے۔ آپ نے انسانوں کو زندگی کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کا مشورہ نہ دیا۔ وہ جانتا تھاکہ انسان کے پاس بدن ہے اور روح بھی ہے۔ اور بدنی ضروریات کوفراموش اورنظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اسی لئے اُس نےخودبھی دیگر انسانوں کی طرح کھایا اور پیا۔ علاوہ ازیں اُس نے بیماروں کوشفادی۔ اندھوں کی آنکھیں کھولیں۔لنگڑوں کوتندرست کیا۔ یہاں تک کہ مُردوں کوبھی زندہ کیا۔ وہ انسانوں کی مادی احتیاجوں سے واقف تھا۔ اورخوراک اورپوشاک کی ضرورت سے بے خبر نہ تھا۔ چنانچہ اُس نے بھوکوں کوکھانا کھلایا۔ مگر انسانوں کومتنبہ کیاکہ مادی ضروریات کو روحانی ضروریات پر ترجیح نہ دیں۔ اورنہ ہی بدن کو روح پر مقدم ٹھہرائیں ۔ اُس کا مقولہ تھا کہ انسان فقط روٹی سے زندہ نہیں رہتا۔ کیسی حکیمانہ اورمعقول نصیحت ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ انسان کی سب سے زبردست آزمائش یہی ہے کہ وہ روح کونظرانداز کرکے بدن کی پیروی اورپرواہ کرتاہے۔

          سیدنا مسیح نے انسانوں کو اس نئی راہ کی بشارت دی اوراُس کی طرف دعوت دی جس میں مادی اور روحانی ضروریات کے درمیان ربط اورمطابقت پیدا کردی گئی تھی۔ انسان نے یا تو اپنی جسمانی اورنفسانی خواہشوں کا غلام بن کر حیوانوں کی سی زندگی بسر کی ہے  ۔یابدنی ضروریات اور وظائف کوخیر باد کہہ کرتارکوں کی طرح تنہائی اور گوشہ نشینی میں دن گزراے ہیں۔مگر اس سے اندرونی انتشار اور ہیجان پیدا ہوتاہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ بدن روح کی اطاعت کرے۔ اس طرح انسان نفس کے غلبہ سے محفوظ رہ سکتے اور بدن اور روح کی جنگ سے بچ سکتے ہیں اورباہم سلامتی اوراطمینان کی زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ اسی کا نام نجات ہے۔ سیدنا مسیح کی یہ انتہائی آرزو اور کوشش تھی کہ انسان روحانی زندگی کی حقیقت کوپہچان لیں یعنی اس حقیقت کو جواس مادی دنیا کی وسعت سے بہت آگے ہے ۔اور اس حقیقت کوکہ انسان کی روح اُس کے بدن سے افضل اوراشرف ہے۔ اورنیز اس حقیقت کوبھی روحانی اقدار مادی مقبوضیات پر مقدم ہیں۔ یعنی روح کا سرمایہ دنیا کی دولت سے زیادہ قیمتی اورقابل قدر ہے۔ انسان کی اصل ضرورت ہی یہ ہے کہ اس کے حصول کا مقام نجات ہے۔

انسانوں کے ساتھ سیدنا مسیح کے برتاؤ کی مثالیں

            ایک دفعہ لوگ سیدنا مسیح کے پاس ایک عورت کو لائے جوزنا میں پکڑی گئی تھی۔ حضرت موسیٰ کی شریعت مطالبہ کرتی تھی ۔کہ اس عورت کوسنگسار کرکے جان سے مارا جائے۔ سیدنا مسیح نے ایک طرف تواس مجرم کی بے کسی اور بے بسی دیکھی اوردوسری طرف اُس کے گرفتار کرنے والے آدمیوں کی طرف رُخ کرکے کہا کہ جوتم میں بے گناہ ہو وہی پہلا پتھر اس مجرم کومارے۔اس کے بعد عورت کی طرف رُخ کیا اُسے تنبیہ کی کہ جا پھر گناہ نہ کرنا۔ روایت کہتی ہے کہ یہی عورت تھی جس نے بعد میں ایک موقع پر رورو کراپنے آنسوؤں سے سیدنا مسیح کے پاؤں دھوئے اور بیش قیمت عطر کی شیشی توڑ کر اُس کے پاؤں پر ڈال دی۔(انجیل عیسیٰ پارہ لوقا رکوع ۷آیت ۳۸)۔دیکھئے ہمدردی اورمحبت کے ذرا سے اظہار نے عورت کی کایا پلٹ دی۔ اُس کی بدکاری کی شرمناک زندگی سے بچا کر ایک معزز خاتون بنادیا۔

          سیدنا مسیح انسانوں کواُن کی رنگت اور قومیت کے اعتبار سے نہیں دیکھا تھا بلکہ انسان کی رُوح پر نظر ڈالتا تھا۔ آپ نے اُس بیوہ عورت کی بے حد تعریف کی اوراُس کے فعل کوسراہا جس نے اپنی کل پونجی یعنی دودمڑیاں جو اُس کا کل اثاثہ تھا۔ بیت المال میں شوق سے ڈال دیا۔ مگر اُس کے مقابلہ میں مال دار لوگوں نے گن من کر ڈالا۔(انجیل عیسیٰ پارہ لوقا رکوع ۲۱)۔

          ایک دفعہ سیدنا مسیح صُور اور صیدا کی سرحدوں میں جانکلا وہاں ایک غیر قوم یعنی غیر یہودی عورت اپنی بیمار بیٹی کو آپ کے پاس لائی ۔ آپ کے سب صحابہ کرام جو یہودی تھے سیدنا مسیح کوکہا کہ اُس عورت کو بھگاؤ ورنہ تنگ کرے گی مگر وہ عورت منت وسماجت کرتی رہی یہاں تک کہ سیدنا مسیح نے اُس کا استقلال اور ایمان دیکھ کر اُسے کہا کہ اے عورت تیر ا ایمان بہت ہی قوی ہے ۔ تیری درخواست پوری ہوئی۔ یہ عورت غیر قوم تھی مگر سیدنا مسیح کی نگاہ میں وہ ایمان دار تھی۔

          ایک دفعہ ایک رُومی حاکم مسیح کے پاس آیا اور درخواست کی کہ میرے بیمار نوکر کوشفا دیجئے۔ یہ حاکم گوغیر یہودی تھا۔ مگر ایمان رکھتا تھا کہ اگرمسیح فقط ایک لفظ ہی فرمادیں گے تومیرا خادم شفا پاجائیگا۔چنانچہ سیدنا مسیح نے اُس حاکم کاایمان دیکھ کر تعجب کیا اورکہا کہ ایسا ایمان تومیں نے اسرائیل میں بھی نہیں دیکھا اورپھر حاکم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ جا تیرے ایمان کے مطابق ہوجائیگا۔ صلیب پر تو اِس سے بھی بڑھ کر واقع ہوا۔جب سیدنا مسیح مصلوب ہوئے توآپ کے ساتھ دو ڈاکو بھی صلیب دئیے گئے۔ ایک اُس کے دہنے اور دوسرا بائیں ہاتھ۔ ان میں سے ایک نے طنزیہ کہا کہ اگر آپ مسیح موعود ہیں توخود بھی صلیب کے عذاب سے بچ جائیں اورہم کوبھی بچالے۔مگر دُوسرے نے اس کو ڈانٹا اورکہا کہ توخدا سے نہیں ڈرتا۔ حالانکہ توملعون ہے۔اور عذاب میں مبتلا ہے۔ علاوہ ازیں ہم دونوں کی سزا توواجبی ہے۔ ہم اپنے کئے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں مگر اس آدمی نے توکوئی قصور نہیں کیا۔ سیدنا مسیح نے اُس ڈاکو کی عقیدت اور قائلیت دیکھ کر اسے کہا کہ آج ہی تومیرے ساتھ فردوس میں ہوگا"(انجیل عیسیٰ پارہ لوقا رکوع ۲۳آیت ۴۳)۔

مرد اور عورتیں:

            سیدنا مسیح کے زمانہ میں خاندان میں مرد اور عورت کے حقوق کا مسئلہ ایسا ہی پیچیدہ تھا جیسا کہ آج کل ہے(انجیل عیسیٰ پارہ مرقس رکوع ۱۰آیت ۴)۔ موسوی شریعت نے صرف مردوں کو طلاق  کا حق دیا۔ قانونِ طلاق کی متفرق تاویلات تھیں۔ بعض تو ذرا ذرا سے بہانہ پرطلاق دیتے تھے اور بعض فقط حرام کاری ہی طلاق کی وجہ تسلیم کرتے تھے۔ جب سیدنا مسیح سے اس مسئلہ کے متعلق استفسار اور استصواب کیا گیا تووہ اپنے جواب  میں اس مسئلہ کی تہ تک پہنچا۔ یہودیوں کی نگاہ میں عورت پر مرد کوترجیح اور فوقیت حاصل تھی۔ لہذا خاندان میں مردکا رویہ سرداری اور برتری کا ہوتا تھا اور صرف مرد ہی کو طلاق کا حق حاصل تھا۔ مسیح نے اس اساسی غلطی پر اُنگلی رکھی اور فرمایا کہ شریعت میں طلاق کی اجازت تمہاری سخت دلی کے باعث دی گئی تھی۔ مگر خلقت کے شروع میں خدا نے اُن کو نر اور ناری بنایا تھا۔پس جو کوئی اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسری سے بیاہ کرتاہے حرامکاری کرتاہے۔ اسی طرح اگر عورت اپنے منکوحہ مرد کوچھوڑ کر دُوسرے سے بیاہ کرتی ہے تووہ بھی حرامکاری کی مرتکب ٹھہرتی ہے۔

          خدا نے مرد اور عورت کو برابر بنایاہے۔ لہذا ان کی قدر یکساں ہے۔ پس خاندانی تعلقات میں اس برابری اوریکسانیت کو ملحوظ رکھنا چاہئے ۔پیدائش کے وقت شادی کا نظام خدا نے مقرر کیا تھا۔ پس خدا کے ارادہ کو دوام اور قیام حاصل ہے۔

سیدنا مسیح اور عوام الناس

            عوام الناس کے ساتھ اور بالخصوص محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ آپ کے قریبی اور دلی تعلقات سیدنا مسیح کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ چونکہ محصول لینے والے بے انصاف اور سخت گیر تھے لہذا یہودیوں کو ان سے نفرت تھی۔ پابندِ شرع یہودی اُن کے ساتھ کسی قسم کا برتاؤ رکھنا گوارا نہ کرتے تھے۔ مگر سیدنا مسیح نے اُن کے ساتھ ایسے قریبی تعلقات پیدا کئے کہ وہ محصول لینے والوں اورگنہگاروں کے دوست کہلاتے تھے۔یہاں تک کہ آپ نے اُن میں سے ایک کو اپنی بیعت اور پیروی کے لئے منتخب کرلیا۔اُس کا نام متی تھا جو سردار تھا محصول لینے والوں کا اور بعد میں مبشر بنا۔ ایک دفعہ ذکر ہے کہ سیدنا مسیح ایک محصول لینے والے کے گھر میں شریکِ دعوت ہوئے۔ بہت سے محصول لینے والے اور گنہگار بھی مدعوین میں تھے۔ جب فریسیوں نے جو یہودیوں کا ایک متدین فرقہ تھا یہ حال دیکھا تواُن کو شاق گزرا اور سیدنا مسیح کے شاگردوں کو کہا کہ تمہارا اُستاد محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کیوں کھاتا پیتاہے۔ جب سیدنا مسیح نے یہ اعتراض سُنا تو آپ نے ہنسی ہنسی میں یوں جواب دیا کہ تندرستوں کونہیں بلکہ بیماروں کو حکیم کی ضرورت ہے۔ میں متقی پرہیزگاروں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بُلانے آیا ہوں۔(انجیل عیسیٰ پارہ متی رکوع ۹آیت ۱۳)۔

سیدنا مسیح اور عفو:

            عفو اور مغفرت کے متعلق سیدنا مسیح کی تعلیم قابل التفات ہے۔ عام طورپر لوگ صرف اُن کو معاف کرتے ہیں جو اپنے قصوروں کا اقرار کرکے معافی کی درخواست کرتے ہیں۔ اور عوام کی نظروں میں انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے۔مگر مسیح عفو کے بارہ میں بہت آگے نکل گئے اورفرمایاکہ معاف کرنے کے لئے مجرم کےاقرار کا انتظار نہ کرنا چاہیے۔سیدنا مسیح کا قول ہے کہ مجرم نہ ٹھہراؤ توتم بھی مجرم نہ ٹھہرائے جاؤ گے۔ الزام نہ لگاؤ توتم پر بھی الزام نہ لگایا جائیگا۔ معاف کرو توبھی معاف کئے جاؤ گے ۔ اس دُعا میں جو آپ نے اپنے صحابہ کرام کوسکھائی اس میں کہاہے کہ اگرتم آدمیوں کے قصور معاف کروگے توتمہارا آسمانی باپ تمہارے قصور معاف کریگا۔

          سیدنا مسیح کا معیار عفو خدا کا معیار تھا۔جس طرح خدا فراخدلی سے معاف کرتا ہے۔ اسی طرح انسانوں کوبھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرنا چاہیے۔ ایک دفعہ جب آپ کے ایک صحابی بنام حضرت پطرس نے آپ سے سوال کیاکہ اگر میرا بھائی میرا قصور کرتے تو میں کتنی بار اُس کو معاف کروں۔ کیا سات دفعہ معاف کروں تومسیح نے جواب دیا کہ نہیں ستر کے ساتھ دفعہ معاف کر۔

          سیدنا مسیح کی زندگی میں معافی کا مظاہرہ دیکھ کر بیحد حیرت ہوتی ہے۔ آپ کی زندگی کی آخری شام کو فتویٰ اور تصلیب سے پیشتر آپ کے تمام صحابہ کرام آپ کو تنہا چھوڑ کر بھا گئے۔یہاں تک کہ حضرت پطرس جس نے جانبازی کا دعویٰ کیا تھا۔ اُس نے بھی تین بار قسم کھا کر اوراپنے اُوپر لعنت کرکے کہہ دیا کہ میں تو یسوع کوجانتا بھی نہیں۔ مگر مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد سیدنا مسیح نے حضرت پطرس کی بیوفائی بالکل فراموش کردی اور حضرت پطرس اور دیگر صحابہ کرام سے پھر آملا۔ البتہ یہوداہ اسکریوتی سے صلح کرنے کا موقع نہ ملا۔ اس لئے کہ اُس نے پھانسی لے کر خود کشی کرلی تھی۔ صلیب پر سیدنا مسیح نے اُن ظالم دشمنوں کے لئے جنہوں نے اُسے ٹھٹھوں میں اڑایا اوراُس پر اس قدر ظلم کیاکہ اُس کی جان لی یہ دعا کہ اے باپ اُن کومعاف کر۔ یہ نہیں جانتے ۔ کہ کیا کررہے ہیں۔ یہ عروج وکمال تھا اُس کی زندگی میں الہٰی محبت کے ظہور کا۔

آخری لفظ:

            انسان کیا ہے؟ ہم خود شناسی کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟ کسی شئے کا علم دیگر اشیاء کے ساتھ اس کی نسبتوں اور تعلقات سے حاصل ہوتاہے۔ اسی طرح خود شناسی کے لئے یعنی علمِ ذات کے لئے متعلقہ اشیاء پر نگاہ کرنا لازمی امر ہے۔ مثلاً اپنی جائداد پر۔ صحت پر حیثیت اورمرتبہ پر۔ تاہم ان میں سے کسی شے سے ہمیں اپنی ذات کا صحیح اور کامل تصور اورعلم حاصل نہیں ہوتا۔ اگرہم خدا کو علیحدہ اوربے تعلق کردیں توانسانی زندگی محض مجذوب کی بڑثابت ہوگی۔ ایک حادثہ سانظر آئیگی۔ اورایک باطل اور بے معنی کہانی ثابت ہوگی۔ لیکن اگرہم خدا کی ہستی پر ایمان رکھیں اور اُس کے ساتھ جونسبت ہم کو حاصل ہے۔اُس کی روشنی میں اپنی ذات پر نگاہ کریں تب ہم کوانسانیت کا صحیح تصور حاصل ہوگا۔اگر ہمارا خدا ایسا بیدرد اور خودرائے ہوکہ جب چاہے انسانوں کو دوزخ میں جھونک دے توانسان محض زمین پر رینگنے والا ایک کرم ثابت ہوگا اوراس کی زندگی باطل اور بے مطلب ٹھہرے گی۔لیکن برعکس اس کے اگر ہم ایمان رکھیں کہ خدا محبت ہے۔ جوجنگلی سوسنوں کو لباس حُسن پہناتا۔ پرندوں کوکھلاتا اورہرایک کی فکرکرتاہے توانسان کی زندگی بیش قیمت اور گراں قدر ثابت ہوگی۔مسیح نے خدا کو شفیق اورمحسن جانا اوراُس کی شفقت اوراحسان کے پیش نظر انسان کو دیکھا اوراُس کے ساتھ پیش آیا۔ اورانسانوں کو مشورہ دیاکہ تم بھی اُنہیں تعلقات کی روشنی میں اپنی ذات پر نگاہ کرو۔خدا کی اس محبت کے عملی ثبوت کے لئے وہ انسانوں کے لئے نثار ہوگیا اور صلیب پر جان قربانی کردی۔ سیدنا مسیح کی صلیب ایک طرف تویہ دکھاتی ہے کہ انسان کی خباثت کی انتہا کیا ہے۔ اور دوسری طرف یہ بتاتی ہے کہ خدا کی محبت کیسی بے انتہا ہے۔ سیدنا مسیح کی مصلوبیت تاریخ عالم میں ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جوہرفرد بشر سے انصاف اور تصفیہ کا تقاضا کرتی ہے۔

تاریخ اور پروردگاری:

            پروردگاری کے یہ معنی ہیں۔ کہ تاریخ عالم میں خدا ایک مقصد اور ارادہ رکھتاہے۔ کیا ہم تاریخ میں خدا کا ارادہ دیکھ سکتے ہیں۔ہم حادثات یعنی المناک اور حسرت انجام وقوعات کی کیا تاویل کرسکتے ہیں۔ یعنی ضرر رساں اورتباہی خیز واقعات کیوں گزرتے ہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے انسانی عقل کو محو حیرت بنا رکھاہے۔ہم کو تاہ نظر ہیں۔ ہم فقط اپنے زمانہ کو اوراپنے گردوپیش کے واقعات کودیکھتےہیں۔ مگر خدا کی تجویز کل پر حاوی ہے۔ اُس کی تجویز اور تدبیر زمان ومکان کو گھیرے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری محدود عقل اورکوتاہ نظری اس مسئلہ کے حل میں پریشان اور سراسیمہ رہتی ہے۔یہ سوال اس قدر عمیق ہے کہ ہم اُس کی تہ تک پہنچ نہیں سکتے۔ اوراس قدر وسیع ہے ۔ کہ ہم اس کا اندازہ نہیں لگاسکتے ۔ پس ہم کو بے سوچے سمجھے اُس پر رائے زنی نہیں کرنا چاہیے۔ خدا کے کام اورانسان کے کام میں بے حد فاصلہ اور دُوری ہے۔ حقیقت اور تصنع یعنی بناوٹ میں بہت اختلاف ہوتاہے۔انسان کا کام ایک باغ کی مانند ہے جو حساب کے قاعدوں سے ماپا اور مرتب کیا ہوا ہوتاہے۔ خدا کا کام لق ودق جنگل کی طرح بیحد وحساب ہوتاہے۔ اور غیر مرتب معلوم ہوتاہے کہ مگر عظیم الشان ہوتاہے۔ مصنوعی پھول نہایت متناسب ہوتاہے۔ مگرایک قدرتی پھول نہیں ہوسکتا ہے۔ اگرچہ غیر متناسب ہوتا ہم اس میں حُسن ہوتاہے۔ ایک مصنوعی زبان ہے جوخوب ترتیب دی ہوئی ہے اس زبان کا نام ہے اسپرانٹو ۔مگر ہم اپنی زبان کواس پر ترجیح دیتے ہیں۔خواہ اس میں ترتیب نہ ہی ہو۔ یہی حال تاریخ عالم کی تصویر کا ہے۔ اُس میں تناسب ۔ ترتیب اور موزونیت نظر نہیں آتی۔ اگرہم حساب کے قاعدہ سے اُس کے تناسب کوناپنے کی کوشش کریں گے توہم کو بیحد مایوسی ہوگی۔اس لئے کہ اسکا بنانے والا انسان نہیں۔بلکہ خدا ہے۔ یہ ایک مرتبہ اور منظمہ بے ترتیبی ہے۔ یہ نظر کوبھدی معلوم ہوتی ہے۔مگر اس میں نظام اور سلسلہ ہے۔

          حاصل کلام یہ ایمان رکھنا کہ تاریخ میں خدا کی پروردگاری ہے ذاتی مذہبی تجربہ سے تعلق رکھتاہے ۔اگر کوئی انسان دوست کی طرح خدا سے بے تکلف ہے اور خدا نے موافق اور غیر موافق حالات میں اُس کی دستگیری اور ہدایت کی ہے تووہ اس حقیقت پر ایمان رکھے گا کہ تاریخ انسانی میں رضائے الہٰی ضرور ہے اور وہ اپنے پڑوسی کی بلکہ کل نوع انسان کی دستگیری اورہدایت ضرور کرے گا۔ اگر میں یہ ایمان رکھتاہوں کہ خدا دستِ غیب سے میری قوم کی ہدایت کرتاہے تو میں یہ ایمان بھی رکھ سکتا ہوں کہ خدا دیگر اقوام کوبھی ہدایت کرتاہے ۔ اگر خدا نے میرے دل میں گناہ کومغلوب کرنے کی خاطر دکھ اٹھانے کے لئے اپنی آمادگی  کی اظہار کیا تو کئی ایک اس کی پیروی ترک کرکے علیحدگی اختیار کرلی۔ مسیح کی تعلیم میں ان کو معقولیت نظر آئی۔ اس وقت مسیح نے اپنے صحابہ کرام سے مخاطب ہوکر استفسار کیا کہ کیا تم بھی مجھے چھوڑ کر اپنی راہ لوکے۔ صحابہ کرام میں سے ایک نے بڑے طمطراق سے جواب دیاکہ مولا ہم کس کے پاس جائیں۔ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو آپ کے پاس ہیں (انجیل عیٰسی پارہ یوحنا رکوع ۶آیت ۶۸)۔

          آج نوع انسان کے سامنے  یہی سوال اُبھرا ہواہے اوردنیا کا اچھا یا بُرا مستقبل ہمارے صحیح یا غلط جواب پرمدار رکھتاہے۔ انسان ایک بار پھر ایک چورستے پر کھڑا ہے۔ اوراُس کے چاروں طرف رستےکھلے ہیں۔ مگر زندگی کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ سیدنا مسیح ہیں جس نے فرمایاکہ

" راہ اور حق اور زندگی میں ہوں"

 

 

 

 


Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (15007)
Comment function is not open
English Blog