en-USur-PK
  |  
07

آسیب زدہ لڑکے کو شفا بخشنا

posted on
آسیب زدہ لڑکے کو شفا بخشنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

27-Miracle   

Jesus Heals a Boy with a Demon     

Mark 9:14-29

 

 

آسیب زدہ لڑکے کو شفا بخشنا

۲۷ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت مرقس ۹باب ۱۴تا۲۹

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

 اس معجزے کا بیان حضرت مرقس کی انجیل میں زیادہ مفصل طور پر پایا جاتا ہے ۔ حضرت متی اور حضرت لوقا میں کسی قدر اختصار کے ساتھ مندرج ہے ۔

معلوم ہوتا ہے کہ وہ جگہ جہاں یہ معجزہ واقع ہوا اس پہاڑ کے دامن سے لگی ہوئی تھی جہاں ہمارے مولا کی صورت تبدیل ہوئی (حضرت لوقا ۹باب ۳۷آیت )۔

گمان کیا جاتا ہے کہ جس وقت ہمارے مولا حضرت پطرس اور حضرت یعقوب اور یوحنا کے ساتھ پہاڑ پر تھے اس وقت آپ کی اور تینوں شاگردوں کی عدم موجودگی میں باقی نو شاگردوں کے پاس اس لڑکے کو اس کا باپ لا یا مگر وہ ان وجوہات کے باعث جن کاذکر آگے کا جائے گا شفا نہ دے سکے اس لئے ان کے درمیان اور فریسیوں کے درمیان جو ہر قسم کی باتو سے جھگڑے کے موقعے ڈھونڈتے رہتے تھے بحث ہونی لگی ۔ اب یہ بحث ہورہی تھی کہ جناب ِ مسیح اپنے تینوں شاگردوں کے ساتھ آپہنچنے ۔ اور فوراً ساری بھیڑ آپ کو دیکھ کر نہائت حیران ہوئی اور آپ کی طرف دوڑ کر آپ کو سلام کرنے لگی (حضرت مرقس 9باب 15آیت )اس حیرت کا سبب بعض لوگوں کی رائے میں یہ تھا کہ آپ وہ جلال جس سے آپ کا چہرہ پہاڑ پر نورانی ہوا اب تک کسی قدر آپ کے چہرے پر چمک رہا تھا ۔ جس طرح حضرت موسیٰ کا چہرہ جس وقت وہ پہاڑ پر سے اترا (توریت شریف کتاب خروج 34باب 30آیت )تاباں تھا اسی طرح جنابِ مسیح کا چہرہ درخشاں تھا گو اتنا فرق تھا کہ حضرت موسی ٰ کے چہرہ کی روشنی میں کچھ ایسی دہشت کی آمیزش تھی کہ دیکھنے والا تاب نہیں لا سکتا تھا مگر جنابِ مسیح کے چہرے میں ایسی دل کشی پائی جاتی تھی کہ دیکھنے والا ہول نہیں کھاتا تھا بلکہ اسے دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ اس موقعہ پر لوگ آپ کو دیکھ کر حیران ہوئے پر تاہم آپ کی طرف کھینچے چلے آئے ۔

لیکن فرق ثانی اس رائے کے برخلاف تھی (حضرت متی 17باب 9آیت )پیش کرتے ہیں وہاں لکھا ہے "اور پہاڑ سے اترتے میں جنابِ مسیح نے انہیں یہ حکم دیا کہ جب تک بنی آدم مردوں میں سے نہ جی اٹھے جو کچھ تم نے دیکھا ہے اس کاذکر کسی نہ کرنا " اس سے وہ یہ دلیل نکالتے ہیں کہ اگر مسیح کا چہرہ اس وقت تاباں ہوتا تو لوگ اس غیر معمولی اظہار کو دیکھ کر اس کی وجہ اس کے شاگردوں سے دریافت کرتے پس وہ جن کو اس راز کے فاش کرنے کی ممانعت کی گئی تھی ان کو کونسا تسلی بخش جواب دیتے ؟ پس اگر مسیح کے چہرے کے غیر معمولی طور پر مدت تک نورانی رہنا تھا تو وہ اپنے شاگردوں کو اسی ممانعت نہ کرتے ۔ لہذا ان کے رائے میں یہ لوگ مسیح کو دیکھ کر اس لئے متعجب نہیں ہوئے کہ آپ کے چہرے پر کوئی غیر معمولی نور چمک رہا تھا۔ بلکہ اس لئے کہ وہ یکایک ان کے درمیان نمودار ہوا اور اب وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا وہ اسے شفا بخش سکتے ہیں یا نہیں۔حضرت مرقس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بحث کی گرم بازاری کو دیکھ کر مسیح ان لوگوں سے جو شاگردوں سے تکرار کررہے تھے پوچھا " تم ان سے کیا بحث کرتے ہو؟" ہمارے مولا اپنے شاگردوں کی مشکل کو دیکھ کر ان کی مدد کے لئے آگے بڑھتے اور جو بات وہ نہیں کرسکتے  اس کے پورا کرنے کے لئے خود آگے آتے ہیں۔ گویا وہ یہ کہتے ہیں کہ اب میں آگیا ہوں سو جو کچھ تمہیں پوچھنا منظور ہے مجھ سے پوچھو۔ میرے ساتھ گفتگو کرو اور میں تمہیں تمہاری باتوں کا جواب دوں گا۔ ٹرنچ صاحب کہتے ہیں کہ جس طرح کوئی لائق کپتان  جس کی غیر حاضری میں اس کے ماتحت لفٹینٹ  قریباً پشت دکھانے پر آجاتے ہیں میدان جنگ میں نمودار ہوکر وقت کی تمام ضرورتوں کا موزانہ  کرتے اور اپنی حضوری کے زور سے بگڑی ہوئی بات کو پھر بناتا ہے اور فتح کے آثار پیدا کرتا ہے اسی طرح اب ہوا "  اس موقعہ پر حضرت مرقس کی تازہ  بیانی کی نسبت جو کچھ ٹرنچ صاحب نے کہا ہے وہ غور کے لائق ہے ۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت مرقس کبھی حضرت متی سے اور کبھی حضرت لوقا  سے مختصر طور پر واقعات کونقل کرتے ہیں۔ مگر خود کچھ نہیں لکھتے ۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے اس واقع کی تصویر کھینچ دی ہے حضرت متی اور حضرت لوقا  ایسا مفصل بیان تحریر نہیں کرتے ۔ کو ن اس جگہ اور کئی اور مقامات کو جو تفصیل اور تازگی سے پر ہیں دیکھ کر ان پر یہ الزام لگاسکتے ہیں کہ فقط اوروں سے نقل کرتے ہیں اور خود ایک علیحدہ انجیل کا مصنف نہیں ہے ؟

مسیح کا سوال سن کر سب خاموش ہوگئے اور ان میں سے صرف ایک شخص بولنے لگا اور وہ اس لڑکے کا باپ تھا۔ حضرت متی بتاتے ہیں کہ " وہ آپ کے آگے گھٹنے ٹیک کرکہنے لگا " (حضرت متی 17باب 14آیت )مراد یہ ہے کہ بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس کو سجدہ کرکے بولا " اے مالک میرے بیٹے پر رحم کریں کیونکہ اس کو مرگی آتی ہے اور وہ دکھ اٹھاتا ہے اس لئے اکثر آگ میں گرپڑتا ہے اور اکثر پانی میں بھی " (حضرت متی 17باب 15آیت )۔

حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ یہ لڑکا اس کا اکلوتا بیٹا تھا (حضرت لوقا 9باب 18آیت ) پر وہ چھوٹی عمر کا لڑکا تھا (حضرت متی 17باب 18آیت ،حضرت متی 9باب 24آیت ،حضرت لوقا 9باب 42آیت )بیماری کی علامتیں جو انجیل شریف میں بتائی گئی ہیں اور خصوصاً جو حضرت مرقس 9باب 18آیت میں مفصل بیان کی گئی ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بیماری مرگی کی تھی۔ لیکن اس کی تکلیف کا اصل سبب بدروح تھی جو اس کے اندر گھسی ہوئی تھی۔ یا تو اس بیماری کے سبب اس لڑکے میں گھسنے کا موقع ملا یا یہ بیماری اس کے آنے سے پیدا ہوئی ہوگی۔ بہر کیف اس وقت یہ لڑکا اس کے ہاتھوں سے سخت تکلیف میں تھا۔ حضرت مرقس ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ "گونگی روح تھی " (حضرت مرقس 9باب 17آیت )جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لڑکا اس روح کے آنے سے گونگا ہوگیا تھا۔ پر حضرت لوقا کہتے ہیں کہ وہ " چیخ اٹھتا ہے " (حضرت لوقا 9باب 39آیت )واضح ہو کہ ان دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ کیونکہ لڑکا چیخ اٹھتاتھا پر باتیں نہیں کرسکتا تھا۔ حضرت مرقس کے الفاظ سے معلوم ہوجاتاہے کہ یہ لڑکا کیسی تکلیف میں تھا۔ اسکا باپ سیدنا مسیح سے کہتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو جس میں گونگی روح ہے آپ کے پاس لایا تھا۔ وہ جہاں اسے پکڑتی ہے پٹک دیتی ہے اور وہ کف لاتا اور دانت پیستا ہے اور سوکھتا جاتاہے ۔" اور چونکہ یہ تکالیف اس پر ہر وقت اور ہر موقعہ پر آسکتی تھی لہذا وہ طرح طرح کے حوادث  میں گرفتار ہوچکا تھا اور آئندہ ان میں گرفتار ہونے کے خطرے میں تھا مثلا ً اس بدروح نے "اکثر اسے آگ میں اور اکثر پانی میں ڈالا تھا تاکہ اسے ہلاک کرے " حضرت مرقس کے  اس بیان سے صاف ظاہر یہ سب باتیں بدروح کے سبب وارد ہوتی تھیں کیونکہ وہ انہیں اسی سے منسوب کرتے ہیں۔ جب اس لڑکے کے باپ نے سیدنا مسیح سے کہا کہ " میں اسے آپ کے شاگردوں کے پاس لایا تھا مگر وہ اسے اچھا نہ کرسکے (حضرت متی 17باب 16آیت )تو جناب ِ مسیح نے اس کے جواب میں فرمایا " اے بے اعتقاداور  کج روقوم میں کب تک تمہارے ساتھ رہوں گا ؟ کب تک تمہاری برداشت کروں گا ؟ اسے یہاں میرے پاس لے آؤ۔"

مسیح کے اس جواب کے متعلق مفسرو ں میں اختلاف ہے ۔ بعضوں کی رائے یہ ہے کہ یہ الفاظ شاگردوں پر عائد ہوتے ہیں۔ گویا مسیح اپنے دل میں رنجیدہ ہوکر شاگردوں کو کہتے ہیں کہ میں تھوڑے عرصہ کے لئے تم سے جدا ہوا تھا مگر اسی قلیل سے عرصہ میں تاریکی کی قدرتوں کا مقابلہ کرنے والی طاقت تم سے جاتی رہی اور جب میں تم سے ہمیشہ کے لئے جسمانی طور پر جدا ہوجاؤں گا تو پھر تم کیا کرو گے ؟ اور وہ کہتے ہیں کہ حضرت متی 17باب 20آیت میں تشریح کی تائید کرتی ہے ۔"

لیکن دوسرا فریق یہ بتاتاہے کہ مسیح اس وقت ان لوگوں کی طرف مخاطب ہیں جو وہاں کھڑے تھے اور واقعی لفظ قوم یا پشت سے مراد یہی لوگ ہوسکتے ہیں وہ گویا اس وقت تمام یہودی قوم کی کجروی کا نمونہ تھے۔ اور لڑکے کا باپ بھی  اس توبیخ میں شامل تھا۔

ہمیں یہ خیال بہتر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سخت کلام گوبالتخصیص شاگردوں کی طرف مخاطب ہوکر نہیں کہا گیا تھا مگر وہ بھی اپنی کم اعتقادی کے سبب اس ملامت میں داخل تھے۔ کیونکہ وہ بھی اپنے ایمان کی کمی کے سبب گویا اسی ناقص جگہ کھڑے تھے جہاں ان کی قوم کے لوگ کھڑے تھے۔ آپ کے شاگردوں نے ابھی پچھلی سردیوں یا بہار کے موسم میں (حضرت متی 10باب 1تا 8آیت ) بدروح کو نکالا تھا۔ اور اب بھی نکالتے اگر ان کے ایمان میں ضعف نہ آیا ہوتا (حضرت متی 17باب 20آیت ) ۔

اے بے اعتقاد اور کج رو قوم ۔یہ الفاظ توریت شریف کتاب ِ استشنا 32باب 5و20آیت ) کو یا د دلاتے ہیں اور ان کا مقابلہ (انجیل شریف خطِ اہل فلپیوں 2باب 15آیت ) سے کرنا چاہئیے واضح ہو کہ اس قوم کے درمیان جو بے اعتقادی پائی گئی تھی وہ گواہی اور شہادت کی کمی کے سبب سے نہ تھی کیونکہ گواہی بہتات سے موجود تھی بے اعتقادی کا سبب ان کی کج روی تھی جس کے سبب سے انہوں نے گواہی کو ردکیا۔یونانی میں جو لفظ کج روی کے لئے آیا ہے اس کے معنی "مڑا ہوا "بالکل "جھکا ہوا "یا بالکل" ٹیڑھا " مراد ہے ۔

میں کب تک تمہارے ساتھ رہوں گا ۔ ٹرنچ صاحب کہتےہیں کہ ان الفاظ سے یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ گویا وہ ایسے شخص کے الفاظ ہیں جو خاکی جامہ اتارنا چاہتا ہے۔ بلکہ انہیں ایک ایسے استاد کے الفاظ سمجھنا چاہئیے جو اپنے شاگردوں کی سستی اور کند ذہنی سے رنجیدہ ہورہا ہے ۔

اسے یہاں میرے پاس لاؤ ۔ جو کام شاگردوں سے نہ ہوسکا اسے وہ اب خود کرتے ہیں۔ جیحازی کا عصا جس مردہ کو زندہ نہ کرسکا اسے الیشع نے زندہ کیا۔ اسی طرح ہمارا مولا اس بیمار کو آپ تندرست کرتا ہے۔

مسیح نے اسے جھڑکا اور بدروح اس سے نکل گئی اور وہ لڑکا اسی گھڑی اچھا ہوگیا۔ (حضرت متی 17باب 18آیت )اس جگہ یاد رکھنا چاہئیے کہ جب یہ لڑکا پہلی مرتبہ مسیح کے پاس لایا گیا تو فی الفور روح نے اسے مروڑا اور وہ زمین پر گرا اور کف بھرلا کر لوٹنے لگا " شیطان یا اس کی بدروح میں چھوٹے چھوٹے لڑکوں میں ہوں یا بڑے بڑے آدمیوں میں ہوں جب مسیح کی بادشاہت کے نزدیک آتی ہیں گو گھبرا اٹھتی ہیں اور جتنا نقصان کرسکتی ہیں کرتی ہیں۔ حضر ت مرقس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس موقعہ پر اس لڑکے کے باپ اور مسیح کے درمیان گفتگو ہوئی۔ اور کیوں ؟ اس لئے کہ لڑکے کے ساتھ تو اس حالت میں گفتگو ہونہیں سکتی تھی مگر اسلئے اس میں ایمان پیدا کیاجائے۔ مسیح اس کے سر پرست کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں بدیں خیال کہ وہ ایمان لائے اور اس کا بیٹا شفا یاب ہوجائے ۔ چنانچہ وہ اس پوچھتے ہیں " یہ اس کو کتنی مدت سے ہوا ۔" باپ جواب دیتا ہے "بچپن سے اور اس نے اکثر اسے آگ میں اور پانی میں ڈالا تاکہ اسے ہلاک کرے اگر آپ کچھ کرسکتے ہیں تو ہم پر رحم کریں۔ ا س آدمی میں یہ خوبی تھی کہ اس نے بھی سورفینکی عورت کی طرح اپنے بیٹے کی زندگی اور اپنی زندگی میں کسی طرح کا فرق نہ رکھا۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ " ہم پر رحم کر یں " جس طرح اس عورت نے کہا تھا مجھ پر رحم کریں حالانکہ یہ منت اس کی بیٹی کے لئے تھی ۔ (حضرت متی 15باب 22آیت ) مگر اس بات میں ایک بڑی کمی بھی تھی اور وہ یہ کہ وہ صاف ایمان کے ساتھ نہیں آیا تھا اس کے دل میں"اگر " نے روک ڈال رکھی تھی اور اسی سے اس کے لڑکے کی شفایابی نا ممکن ہوگئی تھی مگر مسیح کا کلام اس سد رہ کو دور کرتا ہے چنانچہ مسح نے اس فرمایا" اگر تو کرسکتا ہے ۔" جو اعتقاد رکھتا ہے اس کے لئے سب کچھ ہوسکتا ہے۔ " (حضرت مرقس 9باب 23آیت )۔

اگر تو کرسکتا ہے ۔گویا مسیح یہ کہتے ہیں کہ تومجھے یہ کہتاہے کہ اگر توکرسکتا ہے توکر حالانکہ بات سری تیرے اوپر منحصر ہے ۔ اس بدروح میں کوئی ایسی بڑی طاقت نہیں کہ میں اس کو نکال نہ سکوں۔ روک تیرے اندر موجود ہے جب تک ایمان نہ لائے کہ میں تیرے بیٹے کو شفا دے سکتا ہوں تب تک یہ کام نہیں ہوسکتا ۔ میں کرنے کو تیار ہوں اور کرنے پر قادر ہوں بشرطیکہ تو ایمان لائے ۔ پھر اس نے فرمایا " جو اعتقاد رکھتا ہے اس کے لئے سب کچھ ہوسکتا ہے ۔ مسیح کے یہ الفاظ ایمان پیدا کرنے کے واسطے کہے گئے تھے اور انہوں نے اس میں ایمان پیدا کیا۔ چنانچہ وہ مسیح کا یہ کلام سن کر چونک اٹھا اور کہنے لگا ۔ میں اعتقاد رکھتا ہوں تو میری اعتقادی کا علاج کر " (حضرت مرقس 9باب 24آیت ) "میری بے اعتقادی کا علاج کر " جب اس میں ذرا سا ایمان پیداہوگیا۔ تب اس نے بے اعتقادی کی برائی اور گہرائی کو دیکھا او رکہنے لگا کہ اے مالک میں نے اب بے اعتقادی کی خرابی کو دیکھ لیا ہے تو اس کا علاج کر۔ ہاں جب خدا کے فضل کا جلال جلوہ گرہوتا ہے تب ہی انسان اپنی کمیوں کو دیکھتا ہے اور اپنے گناہوں سے واقف ہوتا اور خصوصاً اپنے ایمان کے نقصوں کو جان جاتا اور ان کا علاج طلب کرتا ہے۔

اب جب کہ سب رکاوٹیں دور ہوگئیں تب جیسا حضرت متی کہتے ہیں مسیح نے اسے جھڑکا اور بدروح اس سے نکل گئی ۔" لیکن یہاں پر بھی ہمیں پھر حضرت مرقس کی طرف لوٹنا پڑتا ہے کیونکہ وہ ہم کو بتاتا ہے کہ مسیح نے کس طرح اس بدروح کو جھڑک کر نکالا۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ " اس نے ناپاک روح کو جھڑک کر اس سے کہا " اے گونگی بہری روح میں تجھے حکم کرتاہوں کہ اس میں سے نکل آ اور اس میں پھر کبھی داخل نہ ہو "(حضرت مرقس 9باب 25آیت )"میں تجھے حکم کرتاہوں "گویا اس سے کہتا ہے کہ اب جو شخص تجھ سے ہم کلام ہورہاہے وہ نور کا شہزادہ ہے اور وہ تجھے حکم کرتاہے کہ اس میں سے نکل جا۔ اس وقت وہ کم اعتقاد شاگرد تجھ کو نہیں نکال رہے جن کی بات تونے نہ مانی اب وہ حکم دے رہا ہے جس کے حکم کے بر خلاف تو کچھ نہیں کرسکتی ۔ اور پھر نہ صرف یہی حکم دیاجاتا ہے ا س میں سے نکل جائے بلکہ یہ بھی کہ پھر کبھی اس میں داخل نہ ہو۔ ممکن تھا کہ وہ بدروح اس میں دیر تک رہنے کے سبب سے اس پر پھر قابو پانا چاہتی (حضرت متی 12باب 45آیت )مگر مسیح اسے حکم دیتا ہے کہ وہ اس میں پھر کبھی داخل نہ ہو۔ حضرت مرقس بتاتے ہیں کہ وہ بدروح "چلا کر اور اسے بہت مروڑ کر نکل آئی اور وہ مردہ سا ہوگیا ایسا کہ اکثروں نے کہا کہ وہ مرگیا "(حضرت مرقس 9باب 26آیت )یہ آخری صدمہ ایسا شدید تھا کہ اسے غش آگیا اور وہ ایسا ہوگیا جیسے مردہ ۔ مگر مسیح نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا اور وہ اٹھ کھڑا ہوا "(حضرت مرقس 9باب 27آیت )اس مس میں زندگی تھی اور وہ زندگی اس شکستہ جان اور کمزور لڑکے  میں پیدا ہوئی۔

"اس وقت شاگردوں نے مسیح کے پاس الگ آکر کہا کہ ہم اس کو کیوں نہ نکال سکے " اس نے ان سے کہا کہ اپنے ایمان کی کمی کے سبب کیونکہ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اس پہاڑ سے کہہ سکوگے کہ یہاں سے سرک کر وہاں  چلا جا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تمہارے لئے نا ممکن نہ ہوگی " (حضرت متی 17باب 19تا 20آیت ) جب مسیح اس بیمار لڑکے کو اچھا کرچکے تو آپ کے شاگردوں نے اس سے تنہائی میں سوال کیا کہ ہم کیوں اس بدروح کو نکال نہ سکے۔ کیونکہ جب ہم نے اس بدروح کو نکالنے کی حامی بہری تو ہم نے اپنے اس اختیار سے جو تونے خود ہم کو دیا ہے تجاوز نہیں کیا۔ (حضرت متی 10باب 8آیت )اور نہ ہم ہمیشہ ناکام ہی ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ آگے ہم  برابر بدروحوں کونکالتے رہے ۔ اب اس کو کیوں نہیں نکال سکے؟اس کا کیا سبب ہے ؟ مسیح ا س سوال کا جواب دیتے ہیں۔ "اپنے ایمان کی کمی کے سبب " اور حضرت مرقس اس کے ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ مسیح ان کو نہ صرف ان کی ناکامی سے آگاہ کرتے ہیں بلکہ ان کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح ایسے بڑے معجزے میں آگے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتےہیں کہ "یہ قسم دعا کے سوا کسی اور طرح نہیں نکل سکتی "کئی نسخوں میں دعا کے ساتھ روز ہ کا بھی ذکر ہے ۔مسیح پہلے ایمان ان کے ایمان کی کمی کو ان پر ظاہر فرماتا ہے گویا ان کو یہ بتاتا ہے کہ ایسے بڑے معجزے کے دکھانے کے لئے جیسی حالت ایمان کی رو سے دل اور دماغ کی ہونی چاہیے تھی وہ تم میں موجود نہ تھی۔ ایسے معجزے  کے لئے بہت سی دعا اور دنیاوی وسوسوں سے پورے طور پر آزاد ہونے کی ضرورت ہے حضرت مرقس کہتےہیں کہ " یہ قسم " مفسروں نے اس سے یہ استد لال کیا ہے کہ بدرحوں کے بھی درجہ ہیں اور وہ اس کے ثبوت میں یہ مقام اور و ہ مقام پیش کرتے ہیں جو (حضرت متی 12باب 45آیت ) میں پایا جاتا ہے جہاں ایک ناپاک روح سات اور روحوں کو لے کر آتی ہے جو اس سے بھی زیادہ شریر تھیں اور نیز خط افسیوں 6باب 12آیت کو پیش کرتے ہیں جہاں حضرت پولوس گویا بدروحوں کے ایک درجہ سے دوسرے درجہ تک چڑھتا جاتاہے پر جس طرح کم اعتقادی کمزوری کا منبع ہے اسی طرح ایمان حقیقی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ چنانچہ مسیح فرماتے ہیں کہ " اگر تم میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سرک  کر وہاں چلا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تمہارے لئے نا ممکن ہوگی "غالباً مراد معجزہ دکھانے والے ایمان سے ہے ۔ تاہم وہ جو ایمان رکھتے ہیں وہ مسیح کی قدرت سے بڑی بڑی مشکلات کے  پہاڑ وں کو ہلادیتے ہیں ۔

نصیحتیں اور مفید اشارے

1۔باپ کا عجیب تجربہ (1)جگر خراش اور سینہ فگار دکھ کے متعلق (2)دل شکن ناکامی کے متعلق (3)ایمان کی لڑائی کے متعلق (4)بڑی برکت کے متعلق ۔

2۔ماں باپ کو اپنے بچوں کے لئے دعا کرنی چاہئیے۔ نہ صرف ایسے بچوں کے لئے جو خود دعا نہیں کرسکتے بلکہ ا ن کے لئے بھی جو کرنا نہیں چاہتے۔

3۔مسیح کم اعتقادی سے رنجیدہ ہوتا ہے۔ (1)اس لئے کہ یہ صفت ا س کی طبعیت کے موافق نہیں۔ (2)اس لئے کہ بے ایمانی میں گناہ لپٹا ہوا ہوتا ہے (3)ا س لئے کہ وہ جانتا ہے کہ لوگ اپنی بے ایمانی کے سبب بہت سی برکتیں کھوئے دیتے ہیں (4)اس لئے کہ کم اعتقادی ان کوششوں کو جو فائدہ پہنچانے کے لئے کی جاتی ہیں بے اثراور بے پھل رکھتی ہے (5)اس لئے کہ کم اعتقاد ہونا گویا مسیح کے ساتھ سرد مہری سے پیش آنا ہے (6)اس لئے کہ بے ایمانی پر فتح پانا مشکل کام ہے۔

4۔خادمان دین کے لئے ضروری امر ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے مالک کی رفاقت میں زندگی بسر کریں  اور اپنی ناکامیوں کے اسباب اس سے دریافت کرتے رہیں۔

5۔ایمان کی کمی (1)مفید کاموں کو روکتی ہے (2)روحانی بینائی کے لئے سدراہ ہے (حضرت متی 16باب 8آیت )(3)وہ لوگوں کو خطرے کے درمیان بزدل بناتی ہے (حضرت متی 8باب 26آیت )(4)وہ انہیں دنیاوی افکار میں مبتلا رکھتی ہے (حضرت متی 6باب 30آیت )۔

6۔اس معجزے کی مشکلات (1)مرض کی خاصیت (2)شاگردوں کی کوششوں کی ناکامی (3)فریسیوں کے کینہ ورسوالات (4)حیران کی بھیڑ کی موجودگی ۔ (5)باپ کی کم اعتقادی گو بعد میں ا س کا علاج کیاگیا۔

7۔چاہئیے کہ مسیح کے شاگرد جب قدرت کو کم ہوتے دیکھیں اسی وقت اپنی کم اعتقادی کا مدراک کریں۔

8۔شاگردوں کی غلطی ۔ جو شاگرد مسیح کے ساتھ پہاڑ پر تھے وہ اس غلطی میں مبتلا ہوئے کہ کام چھوڑ کر گیان دھیان میں لگے رہنا چاہئیے اور جو نیچے تھے وہ بغیر اس گیان دھیان کے جو ایمان سے پیداہوتا ہے دنیا کے ساتھ سخت لڑائی میں مصروف ہونا چاہتے تھے۔

9۔ایمان صرف اسی کام کو انجام دے سکتا ہے ۔ جس کی نسبت وہ قائل ہوگیا ہےکہ وہ خدا کی مرضی اور دعوت کےمطابق ہے۔

10۔ایمان کا یہ طریقہ نہیں کہ پہلے سائنس کی طرح تجربے کرتا پھرے۔ وہ اسی بات کو ہاتھ لگاتا ہے جس کی درستی اور راستی ثابت ہوچکی ہے ۔ اور اسے خدا کی ہدائت اور قدرت سے ملبس ہوکر کرتا ہے ۔

11۔ہم کس طرح پہاڑ دور کریں۔ لازم ہے کہ (1)پہلے ہم اپنی کم اعتقادی کا پہاڑ دورکریں۔ (2)دوسروں کی کم اعتقادی کا جو ہمارے آس پاس رہتے ہیں (3)او رپھر دنیا کی بے ایمانی کا ۔

12۔دعا اور روزہ یہ شرائط ہیں جن سے ایمان تاریکی کی طاقتوں پر غالب آتا ہے۔ دعا اور ایمان کا ہاتھ ہے جو خدا کی قدرت کو آسمان سے زمین پر لاتا اور روزہ وہ ایمان کا عمل ہے جس سے انسان حقیقی معنی میں تارک الدنیا ہوتا ہے ۔ 

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (15648)
Comment function is not open
English Blog