en-USur-PK
  |  
15

سچے خدا کی صحیح شناخت کی ضرورت

posted on
سچے خدا کی صحیح شناخت کی ضرورت

Requires Correct Identification of the True God

Rev. Mawlawi Dr. Imad ud-din Lahiz 

(1830−1900)

سچے خدا کی صحیح شناخت کی ضرورت

علامہ مولوی پادری ڈاکٹر عماد الدین لاہز

تمہید

            بھائیوں میں ایک عاجز او رکم استطاعت شخص ہوں۔ میں کچھ عرصہ کے لئے پھر ۲۰ برس کے بعد پنجاب سے اس شہر آگرہ میں آگیا ہوں۔

          پہلے جب میں یہاں تھا تب میں مسلمان تھا مگر میرے خیالات  میں ایک بڑی  تبدیلی  واقع ہوئی  جس کے سبب سے اب میں دس برس سے عیسائی ہوں۔

          میرا ارادہ ہے کہ گاہے بگاہے  اس مقام پر خدا شناسی کے متعلق  چند باتیں  عرض کروں لیکن نہ تو مباحثہ کے طور پر اور نہ طعن  وتشنیع کے طور پر (کیونکہ  مدت ہوئی کہ میں نے مباحثہ سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اس لئے کہ اس کے متعلق  میری طرف  سے جو کچھ لکھا گیا ہے وہ کافی ہے )۔ صرف یا ددہانی اور اظہار  خیالات  کے طور پر  عرض کرنا چاہتا ہوں  جس سے امیدہے کہ  مجھے بھی اور سامعین کو بھی روحانی فائدہ حاصل ہوگا۔

آج کے دن اسی بات کا بیان ہے کہ خدا کی

صحیح شناخت کی سب کو بڑی ضرورت ہے

          دنیا میں  بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اس ضرورت سے کماحقہ واقف ہوں اگر چہ زبان سے تو سب کے سب  اس ضرورت  کا اقرار کرتے ہیں  لیکن اپنے طرز عمل  سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس سے اب تک ناواقف ہیں کیونکہ  ان کی ساری  کوشش نفس پروری ۔عیش طلبی وعشرت نوازی  اور جلب منفعت میں صرف ہوتی ہے ۔ جب خدا شناسی کے متعلق  ان سے کہا جاتا ہے کہ تو عدیم الفرصتی کا عذر پیش کرتے ہیں  جس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ وہ اس ضرورت سے اب تک ناواقف ہیں۔

اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ پہلے اس ضرورت کو ثابت کروں

          میں نے اس بحث کو خدا کی ہستی کے ثبوت سے شروع نہیں کیا کیونکہ خدا کی ہستی  تو عقلاً  ونقلاً  سب کو مسلم  ہے خواہ وہ عیسائی  ہو یا مسلمان یہودی  ہو یا ہندو کسی کو اس سے انکار  نہیں ہے۔ تاہم خدا کی ہستی  کے متعلق  بطریق  اختصار  اس قدر لکھنا کافی ہے کہ :

(۱)دنیا کی پیدائش  او رانتظام میں ایک عجیب  حکمت اور قدرت اور ارادہ  پایا جاتا ہے جو خدا کی ہستی  کی دلیل ہے۔

(۲) انسانی ضمیر بھی خدا کی ہستی پر گواہی دیتا ہے خلوت میں اور جلوت میں قادر مطلق  کی ہستی  کا دبدبہ  انسانی ضمیر  پر نمایاں نظر آتا ہے ۔

(۳) اس سطح زمین پر تمام بنی نوع انسان کی مختلف  شاخیں  کسی نہ کسی معبود  کی پرستش کرتی ہیں جس سے خدا کی ہستی  صاف ثابت ہوتی ہے ۔

          ہاں بعض  ایسے بھی ہیں جو اس کی ہستی  کا انکار کرتے ہیں لیکن ایسا کمبخت انسان بہت ہی کم نظر آتا ہے جس کی تردید میں تمام مذاہب کے علماء اپنے زبردست  دلائیل  کے ساتھ ہر وقت  تیار رہتے ہیں۔

          اس پر بھی اگر  اس منکر  کی اندرونی  حالت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوسکتا ہےکہ  اگرچہ  وہ اپنے  خیالات  کے اعتبار سے منکر معلوم ہوتاہے مگر اس کی ضمیر  میں خدا کی ہستی  کا ثبوت  نمایاں طور  پر  محسوس ہوتا ہے ۔ لیکن اپنی خواہشات  نفسانی  کو پورا کرنے کی غرض سے اپنے آپ  کو دھوکا دے کر  خدا کی ہستی  سے انکار کرتا ہے اور بطور  خود سمجھنے لگتا ہے کہ  میرے افعال کا کوئی  باز پرس کرنے والا نہیں ۔

          ایسے نفرتی شخص کی باتوں سے وہ کونسا دانا ہے جو موجود ات اور ضمیر  کی اس سنجیدہ گواہی  کو چھوڑ کر  اور اپنے ضمیر کا خون کرکے اپنے خالق  کی ہستی کا انکار کرے۔

          خدا تو ضروری ہے لیکن اس کا عرفان حاصل کرنا از بس ضروری ہے ۔

سوال ۔ کیا جھوٹے خدا بھی کہیں موجود ہیں؟

جواب ۔ فی الحقیقت تو کہیں موجود نہیں لیکن اکثروں نے فکر کی غلطی کے سبب سے اپنے ہاتھوں  سے یا اپنے خیالوں سے اپنے ذہنوں یا اپنی عبادت گاہوں میں فرضی یا ذہنی خدا بنا رکھے ہیں اور اپنی روحوں کو ان کے سپرد کرکے بڑی خطرناک حالت میں پڑے ہیں۔ اور بعض ایسے بھی ہیں جو سچے خدا کی ہستی سے کسی قدر واقف تو ہیں لیکن صحیح شناخت  کی کوتاہی کے سبب سے  قربت  الہیٰ سے محروم ہیں۔

اس لئے ہم کہتے ہیں کہ سچے خدا کی صحیح شناخت  کی سب کو نہایت ضرورت ہے

          اگر چہ اس ضرورت کے اثبات پر بہت سی دلیلیں  پیش کی جاسکتی ہیں لیکن اس وقت  صرف پانچ باتیں پیش کرتا ہوں۔

پہلی بات

            یقیناً  تمام موجودات سچے خدا کی ملکیت ہے۔ اور ہم ذی روح  اور ذی عقل موجودات  میں شامل  ہیں۔ لہذا ازبس ضروری ہے کہ  سچا خدا اپنی شناخت  کے وسیلہ سے ہماری  روحوں  میں سکونت  کرے۔ ورنہ ہم باغی ہوکے ہلاکت  کے فرزندوں  میں شامل ہونگے ۔

دوسری بات

            یہ ہم پر فرض ہے کہ خدا کی فرمانبرداری  اور اطاعت کریں  مگر یہ اطاعت  اور فرما نبرداری  ہو نہیں سکتی جب تک کہ خدا کو  صحیح طور سے نہ پہنچانیں۔ آقا کی خدمت وہی نوکر کرسکتا ہے جو اپنے آقا کی عزت اور معراج اور ارادہ سے واقف ہے۔

تیسری بات

            یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ دنیا گذشتنی اور گذاشتنی ہے ۔ انسانی روح  کسی کسی وقت اس کے چھوڑنے پر مجبور ہوگی اور موت کامزہ چکھ لیگی پس اس خطرناک حالت میں کیا کرے ۔ پاؤ پسار کے مرجائے یا عروة الوثقیٰ کو پکڑے پس سچے خدا کی صحیح شناخت کے سوا وہ کونسی چیز زمین وآسمان میں ہے  جس کو ازروی عقل ہم تھام لیں ۔

          اگرچہ  ہم میں سے بعض کی عقل تعلیم علوم اور اجتماع  خیالات  سلف  اور قدرے  وقوف  حالات  دنیاوی کی وجہ سے کسی قدر روشن ہے  لیکن دل بالکل کالے ہیں۔

          کیونکہ سب خواہشیں  او رارادے  دلوں میں  اٹھتے ہیں اور اعضا کے ذریعہ  ظاہرہو جاتے ہیں  اور خود ہماری ضمیر  گواہی دیتی ہے کہ ہمارے  سب حرکات اور سکنات  اور خیالات  درست ہی نہیں ہیں  اگر چہ کچھ کچھ  درست بھی نظر آئے مگر زیادہ  تر حصہ برائی  کا ہم سے  ظاہر ہوتا ہے اور یہ ثبوت  ہے اس بات  کا کہ ہمارے دل تاریک ہیں۔

          اور یہ بھی ظاہرہے کہ  عقلی روشنی سے نہ کبھی دل روشن ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے ۔ پس دل کی روشنی کی بڑی ضرورت ہے لیکن وہ کہاں سے آئے ؟  موجودات  کی معرفت  صرف عقل  میں کچھ روشنی پیدا ہوتی ہے  نہ دل میں چنانچہ  یہ بات  دنیا کے عقلاً کی تحریر  وتقریر اور چال چلن سے ثابت ہے۔تو بھی  دنیا کے لوگوں میں سے چند ایسے بھی ہیں جن کے دل ضرور روشن ہیں  اور اگر چہ  ان میں مادی روشنی نہیں ہے مگر خدا شناسی  سے بھرے ہوئے نظر آتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ  صرف خداشناسی  سے دل روشن ہوتا ہے پس دل کی روشنی حاصل کرنے کے لئے تاکہ  ہمارے قدم سلامتی کی راہ پر چلیں خدا شناسی  کی بڑی  اور نہایت  ضرورت  معلوم ہوتی ہے ۔

          یہاں تک کہ اگر مادی علوم کی روشنی ہمارے اندر نہ ہو تو  ہمارا چنداں  نقصان نہیں ہے لیکن خدا شناسی  کی روشنی اگر ہمارے  دلوں میں  نہ آئے تو ضرور ہم ہلاک ہونگے ۔ لیکن افسوس  ہے کہ  جس کی بڑی ضرورت ہے اس پر لوگ کم توجہ کرتے ہیں۔

پانچویں بات

            خوشی اور غم اور دنیاوی تغیرات کے دیکھنے سے او رہم پر وقتاً  فوقتاً  ان حالات  کے طاری  ہونے سے ہمارے دلوں میں اوپر ہماری عقلوں میں بھی کس قدر حیرانی  اور بے قراری پیدا ہوتی ہے۔  دنیا وی خوش وقتی  کی حالت میں ہم بچوں کی مانند کیسے بہل جاتے ہیں  اور مصائب کے وقت کیسی بے قراریاں ظاہر ہوتی ہیں۔ غرض دنیا کے دکھ سکھ کی موجوں میں ہماری  کشتی کیسی ڈانواں ڈول چلتی ہے  لیکن خدا شناس لوگوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ ان حالات  یعنی دنیا کے دکھ سکھ میں ایسے ثابت  قدم اور پر تسلی نظر آتے ہیں  گویا وہ ایک دوسرے ہی قسم کے لوگ ہیں۔ نہ تو دنیا وی خوشی میں خوش  ہوجاتے ہیں اور نہ دکھوں میں بے قرار نظر آتے ہیں۔ پس یہ عجیب نعمت  انہیں کہاں سے حاصل ہے؟سچے خدا کی صحیح شناخت سے ۔

حاصل کلام

(۱) خدا کی صحیح شناخت کی بڑی ضرورت ہے اور بغیر ا سکے صاف ہلاکت  نظر آتی ہے ۔

(۲) سچے خدا کی صحیح شناخت  ایک موثر چیز ہے جو دل کو روشن کرتی ہے اور اطمینان  قلبی اس سے حاصل  ہوتا ہے۔

(۳) بغیر اس شناخت کے نہ تو خدا کے حقوق ہم سے ادا ہوسکتے ہیں اور نہ بندوں کے حقوق ۔ اور سلامتی  کی راہ پر ہم کسی طرح نہیں چل سکتے۔

انتباہ

            ایک بڑی غلطی اور ہے جو ہلاکت کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ  اکثر اہل اسلام یوں کہتے ہیں کہ شناخت  الہیٰ ہمیں قرآن وحدیث سے حاصل ہوگئی ہے اور ہنود کہتے ہیں کہ  شاستروں سے حاصل ہوگئی ہے اور عیسائی  کہتے ہیں  کہ ہمیں بائبل سے حاصل ہوگئی ہے اور اس لئے ہم کسی اور کی بات اس بارہ میں نہیں سنتے ہیں۔ نہیں یہ بیجا بات ہے ہمیں ضرور سب کی باتیں خداشناسی کے بارہ میں  سننا واجب ہے اس میں ضرور ترقی ہوگی اگر ہمارے خیالات  فاسد ہیں تو ضرور قوی خیالات انہیں اڑادینگے  اور یہ تو اچھا ہے کہ باطل خیالات  اڑجائیں  اور اگر ہمارے  خیالات  قوی  ہیں  تو دوسروں کی بات سننے سے اور بھی زیادہ مضبوط ہونگے  اور قابل اعتماد ٹھہرینگے نہ سننا یا توجہل مرکب کی وجہ سے ہے یا اس لئے کہ دوسرے کے خیالات  سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ قوی نظرآتے ہیں۔ اس حالت میں باطل  خیالات  کو دباکر بیٹھنا خود کشی کا مرتکب ہونا ہے او ریہ کہنا کہ وہ ہیچ اور پوچ بکتا ہے یہ مغروری کی بات ہے  جو تاریک  دل سے نکلتی ہے خدا ہم سب کو توفیق دے کہ خدا شناسی پر متوجہ ہوں ۔ مسیح کے وسیلہ سے آمین فقط۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا | Tags: | Comments (0) | View Count: (18568)
Comment function is not open
English Blog