en-USur-PK
  |  
12

کوائف برتری

posted on
کوائف برتری

کوائف برتری

Prospectus of Superiority

A Critical Analysis of

Mirza Ghulam Ahmed Qadiani Statements

 

Dr. Khurshid Alam

ڈاکٹر خورشید عالم

                "اگر کوئی مسئلہ علمی طورپر بالکل صحیح نظر آتاہولیکن مشاہدہ اُس کے برعکس ہو تو وہ مسئلہ ایک سچائی کہلانے کا مستحق نہیں۔ کیونکہ مشاہدہ کو وہ مقام حاصل ہے جومنطقی  موشگافیوں کوحاصل نہیں"۔(محترم جمیل الدین صاحب رفیق ۔ بی۔ ایس۔ سی ۔ (جامعہ احمدیہ)۔

(بحوالہ ماہنامہ مصباح ربورہ اپریل ۱۹۶۱ء)۔

                        اب آئیے ہم محترم جمیل الرحمن صاحب کے مسلمہ کلیہ کے تحت مرزا صاحب کے اس دعویٰ برتری کی تحقیق کریں کہ: ابن مریم کے ذکر کوچھوڑو۔اُس سے بہتر غلام احمد ہے۔(دُرثمین)۔

          اس ضمن میں ہم ایسی شہادت پر اکتفا کریں گے جومحض قادیانی حضرات کے بیانات پر مشتمل ہو۔(شاہدِ یسوع)۔  

ابن مریم

غلام احمد

۱۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق انسان کو ہمیشہ کےلئے قائم رکھتا ہے۔ مسیح موسوی کوگذرے ہوئے ؁۱۹۰۰ سوسال ہوچکےہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ  نے اُن کو وہ طاقت  بخشی کہ آج تک کوئی اُن کا مقابلہ نہیں کرسکتا (روزنامہ  الفضل ربورہ ۲۱مئی؁ ۱۹۵۹ صفحہ۱)۔ (زیرعنوان حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نبصرہ العزیز کا احباب جماعت کے نام تازہ پیغام)۔

۱۔اے ازلی اور ابدی خدا میری مدد کے لئے آ۔ زمین باوجود فراخی کے مجھ پر تنگ ہوگئی ہے ۔ اے میرے خدا میں مغلوب ہوں۔ میرا انتقام دشمنوں سے لے ۔ پس اُن کو پیس ڈال۔(حقیقتہ الوحی صفحہ ۱۰۴)۔

۲۔وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کوپہنچا کہ اب چالیس ۴۰ کروڑ انسان اُس کو سجدہ کرتے ہیں اور بادشاہوں کی گردنیں اُس کے نام کے آگے جھکتی ہیں۔(تجلیاتَ الہٰیہ صفحہ ۲۲)۔

۲۔دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسکو قبول نہ کیا۔(الوصیت صفحہ ۵)۔

۳۔قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت حضرت مسیح کے حق میں ہے وجیھا فی الدنیا والاخرۃ ومن المقربین۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی مسیح  کواس کی زندگی میں وجاہت یعنی عزت اور مرتبہ اورعام لوگوں کی نظر میں عظمت اور بزرگی ملے گی اورآخرت میں بھی۔(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۵۰سے ۵۱)۔

۳۔ اس جگہ یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ہم تیری نسبت ایسے ذکر باقی نہیں چھوڑیں گے جوتیری رسوائی اورہتک عزت کا موجب ہوں۔ اس فقرہ کے دومعنی ہیں۔ ۱۔اول یہ کہ ایسے اعتراضات کوجورسوا کرنے کی نیت سے شائع کئے جاتے ہیں۔ ہم دُور کردیں گے ۔ اوران اعتراضات کا نام ونشان نہ رہے گا۔۲۔ دوئم یہ کہ ایسے شکایت کرنے والوں کوجواپنی شرارتوں کونہیں چھوڑتے اور بدذکر سے باز نہیں آتے۔ دنیا سے اٹھالیں گے۔(الوصیت صفحہ ۴)۔

۴۔مسیح وہ ہوتاہے جوخیر اوربرکت کے ساتھ مسح کیا گیا ہو یعنی اُس کی فطرت کوخیروبرکت دی گئی ہو۔ یہاں تک کہ اُس کا چھونا بھی خیروبرکت پیدا کرتا ہو اور یہ نام حضرت عیسیٰ کودیا گیا۔ (مسیح ہندوستان میں صفحہ ۶۹)۔

۴۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو دستوں کی پُرانی بیماری تھی۔ چنانچہ خود حضرت نے اپنی کتاب تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۴۴ پر لکھا ہے کہ مجھے دستوں کی پُرانی بیماری ہے۔ (احمدیہ تبلیغی پاکٹ بک صفحہ ۶۹۵)۔ مولفہ ملک عبدالرحٰمن صاحب خادم گجراتی۔

۵۔ درحقیقت راحولتا سے مراد حضرت عیسیٰ ہیں جن کا نام روح اللہ ہے۔ (مسیح ہندوستان میں صفحہ ۸۷)۔

۵۔ اِس مشتِ خاک کو اُس نے باوجود اِن تمام بے ہنریوں کے قبول کیا۔(تجلیات الہٰی صفحہ ۲۳)۔

۶۔یہ کیسی نجات کی خواہش ہے جس سے ایک سچائی کا خون کیا جاتا اورایک پاک نبی اورکامل انسان کی نسبت یہ اعتقاد کیا جاتا ہے کہ گویا اس پر یہ حالت بھی آئی تھی کہ اُس کا خدا ئے تعالیٰ سے رشتہ تعلق ٹوٹ گیا۔(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۱۶تا ۱۷)۔

۶۔میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جومجھے کرنا چاہیے تھا۔ اور اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں۔(تجلیات الہٰیہ صفحہ ۲۳)۔

۷۔ یسوع" تو " اُس کا نام یسوع رکھنا۔کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے نجات دے گا"۔ (متی ۱: ۲۰)۔ ساع۔ آزاد چرنا۔ نجات کے معنی ۔ خلاصی یا آزادی ہیں اور یسوع کے لئے لفظ چرواہا اکثر آتاہے (الفرقان ربوہ اپریل؁ ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۱)۔ زیر عنوان بائبل اور انگریزی زبان میں اسمائے علم" (ازقلم جناب شیخ احمد صاحب مظہر ایڈوکیٹ  لائل پور )

۷۔ اب سوچو کہ کیا مرتبہ ہے اُس پاک رسول کا جس کی غلامی کی طرف میں منسوب کیا گیا۔(کشتی نوح صفحہ ۵۶)۔

۸۔اُس کا یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ میں پھر زندہ ہوگیا(مسیح ہندوستان میں صفحہ ۱۸)۔

۸۔ ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین ناپ رہاہے۔ تب ایک مقام پر اُس نےپہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے۔(الوصیت صفحہ ۱۹)۔

مسیحیت

احمدیت

۹۔ مارچ کے مہینہ میں جب اس ملک(غانا) کوآزادی ملی تواس موقعہ پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے شہر کے مختلف حصوں میں بڑی بڑی صلییں  نصب کی گئیں ۔(اشاعت اسلام اورہماری ذمہ داریاں صفحہ ۲۱)۔

۹۔کسرصلیب عیسائیت احمدیت کا جز ہےاورجز کے ا بطال سے کل کاابطال نہیں ہوتا بدیں وجہ اُس سے مراد عیسائیت کی تردید بھی درست نہیں بلکہ اُس کے لفظ ہی سے معلوم ہوتاہے کہ آنے والا مسیح کوئی ایسا کام کرے گا جس سے عیسائیوں کی قائم کردہ صلیب باطل ہوجائے گی ۔ (مصباح ربوہ بابت ماہ اکتوبر نومبر ۱۹۵۶ء)

۱۰۔ایک لاہور کا ہفت روزہ معاصرہ اپنی حالیہ اشاعت میں " مسیحیت کا فروغ کیوں" کے زیر عنوان رقمطراز ہے" مولانا غلام مرشد کواللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔ عیدالفطر کے خطبے میں اُنہوں نے پاکستان میں مسیحیت کے فروغ پر اظہار تشویش  کرتے ہوئے صحیح اور معقول مشورے دئیے۔ یہ اطلاع اب خاص پرانی ہوچکی ہے گذشتہ ایک سال کے دوران میں پاکستان کے آٹھ ہزار مسلمانوں نے مسیحیت اختیار کی۔ مولانا نے اس کا بھی تذکرہ کیا اورساتھ ہی بتایا کہ ۴۱ء کی مردم شماری میں پاکستان کے عیسائیوں ۸۰ ہزار تھی۔ مگر تازہ مردم شماری سے معلوم ہوا کہ وہ بڑھ کر دولاکھ ۲۸ہزار ہوچکے ہیں یعنی ایک لاکھ ۴۸ہزار کا اضافہ!

(روزنامہ الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۶۱ء صفحہ ۲کالم)۔

۱۰۔ خواجہ صاحب سے بہت پہلے ؁۱۸۷۴ ء میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے مسلمانوں کو درد بھرے دل سے بطور وصیت  فرمایا تھا کہ عیسائیوں  پر یہ ثابت کردو کہ درحقیقت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہوچکا ہے۔ یہی ایک بحث ہے جس میں فتحیاب  ہونے سے تم عیسائی مذہب کی روسے زمین سے صف لپیٹ دوگے"(ازالہ اوہام صفحہ ۲۳۱)۔

(بحوالہ ماہنامہ الفرقان ربوہ اپریل ۱۹۶۱ء صفحہ ۶۱۲)۔

 

۱۱۔ عیسائی مشنری پاکستان میں نہایت وسیع پیمانے پر تبلیغ کررہے ہیں۔ اُنہوں نے نہ صرف مشن گھر کھولے ہوئے ہیں بلکہ کئی قسم کے خدمت خلق کے ادارے مثلاً سکول اور ہسپتال قائم کئے ہوئے ہیں ۔ وہ اکیلا اکیلا اور گروپوں میں شہر بہ شہر قصبہ بہ قصبہ اور فربہ بہ فربہ گھوم کر یسوع مسیح کی بشارت پہنچاتے ہیں۔اورچونکہ اُن کا طریق کارنہایت مہذبانہ اور شریفانہ  ہوتاہے اس لئے خواہ ان کا مذہب کتنا بھی شرک پر مبنی ہو لوگوں کے دلوں پر اثرکئے بغیر نہیں رہ سکتا۔(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۲۳ دسمبر ۱۹۶۰ء)۔

۱۱۔ میں دیکھتاہوں کہ ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں بھی خیالی بلند پروازی توپیدا ہوگئی ہے۔ مگر افسوس کہ عملی لحاظ سے ابھی بڑی کمزوری پائی جاتی ہے۔جہاں تک زبانی باتوں کا تعلق ہے وہ یہ توکہتے ہیں کہ ہم ساری دنیا کو اسلام سکھائیں گے۔مگر خود پورے طورپر اسلامی احکام پر عمل نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے اُن پر شیخ چلی کی مثال صادق آتی ہے۔کئی سال گذرجاتے ہیں مگر اُن کی روحانیت ترقی نہیں کرتی بلکہ ویسی کی ویسی ہی رہی ہے اوران کے حالات بھی نہیں بدلتے ۔ لیکن زبان سے یہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ ہم ساری دنیا کواسلام سکھائیں گے ۔ ایسے دعوؤں کوکون عقلمند تسلیم کرسکتاہے۔ (روزنامہ الفضل مورخہ ۱۱مئی ۱۹۶۱ء صفحہ ۴۷۳۔ صفحہ ۳ کی کلام ۴۔ صفحہ ۴ کی کالم)۔

۱۲۔ بورنیو کا رقبہ بہت وسیع ہے۔ مگر آبادی بالکل تھوڑی ملک کا زیادہ حصہ جنگلات اورپہاڑیوں پر مشتمل ہے۔اس لئے ذرائع آمدروفت بالکل موجود ہیں۔ ملک کے ا ندرونی حصہ میں جانے کے لئے پہاڑوں اورجنگلوں کوہفتوں پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ ایسے علاقوں میں سے ایک علاقہ راناؤ کا بھی ہے۔ راناؤ کہ علاقہ میں ڈوسون قوم آباد ہے ۔ یہ قوم اُس ملک کی اقوام میں سے سب سے زیادہ تعداد والی ہے۔یعنی کل آبادی کا نصف (دولاکھ) اس قوم کی اکثریت ابھی تک لامذہب ہے۔ عیسائی مشنری سب سے زیادہ توجہ اس قوم کی طرف کررہے ہیں ۔ اس لئے اس قوم  کا کافی حصہ عیسائت میں داخل ہوچکا ہے۔ ڈوسون قوم بالطبع شریف ہے۔ اس لئے ان میں کسی بھی مذہب کواختیار کرلینے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔عیسائی مشن اپنے ہوائی جہاز کے ذریعہ اس علاقہ میں آتے جاتے ہیں۔ (تحریک جدید کے بیرونی مشن صفحہ ۶۳تا ۶۶)۔

۱۲۔ جملہ افراد جماعت احمدیہ کو بار بار تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے رہنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت جماعت کی تعداد آج کی تعداد کا ۱۰۰/۱حصہ بھی نہ تھی لیکن بیعت کی تعداد آج کل کی نسبت سے کئی گناہ زیادہ تھی جماعت کویادرکھنا چاہیے کہ اس موجودہ رفتار سے توتین سوسال تک بھی دنیا میں کوئی انقلاب پیدا نہیں ہوسکتا۔(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۲۴ ستمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۴)۔

۱۳۔ مشرقی  افریقہ کے افریقین مسلمان تعلیمی لحاظ سے بہت پست ہیں۔ عیسائی مشنریز نے جا بجاسکولوں کا جال بچھا رکھاہے۔ وہ اس ذریعہ سے عیسائیت کوفروغ دے رہے ہیں۔ مسلمان طلباجواعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں مسلم سکولز نہ ہونے کے باعث یا توان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے عیسائی ہوجاتے ہیں یا تعلیم سے ہی بے بہرہ رہتے ہیں۔(اشاعت اسلام اورہماری ذمہ داریاں صفحہ ۲۹تا ۳۰)۔

۱۳۔ سیاسی لحاظ سے سیرا الیون دوحصوں میں منقسم ہے۔ایک کالونی اوردوسرا پروٹیکٹوریٹ  کالونی میں ہمارا مرکز سیرا الیون کاصدر مقام فری ٹاؤن ہے۔ فری ٹاؤن مغربی افریقہ کی اہم بندرگاہ ہونے کے علاوہ سارے سیرا الیون کا صدرمقام ہے۔ اسلئے اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس شہر میں اب تک عیسائی تعلیم یافتہ طبقہ کا اقتدار مسلمان تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ہیں اور آپس کی پارٹی بازی کی وجہ سے آج تک مخیر ہونے کے باوجود کوئی معقول اور مضبوط تعلیمی ادارہ قائم نہیں کرسکے۔ (اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ ۱۶تا ۱۷)۔

۱۴۔ عیسائیوں نےاپنے نمائندہ ڈپٹی عبداللہ آتھم کوجون ؁۱۸۹۳ء میں خدا کے مسیح موعود کے مقابل کھڑا کیا۔(احمدیہ تبلیغی پاکٹ بک صفحہ 643 مولفہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی)۔

۱۴۔ ایسے زمانہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تجدید احیائے اسلام کی آواز بلند کی اور عیسائیوں اور آریوں کوجوہندؤں میں ایک نیا فرقہ تھا اسلام کے مقابل چیلنج پر چیلنج دیئے عیسائیوں پادریوں کولکارا۔کہ وہ اپنے مذہب کواسلام کے سامنے پیش کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی پادری احمدیوں کے مقابل میں آنے سے کترانے لگے۔(روزنامہ الفضل ۲۳دسمبر ۱۹۶۰ء)۔

۱۵۔ ربوہ ۲۴ فروری کل مورخہ ۲۵ فروری بروزہفتہ جناب پادری فرریڈرک سٹاک صاحب ایم۔ اے مسئلہ کفارہ پر ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے جامعہ احمدیہ کے ہا ل میں لیکچر دیں گے۔ لیکچر اردو میں ہوگا۔ احباب زیادہ سے زیادہ تعداد میں شمولیت فرمائیں گے"۔(روزنامہ الفضل ۲۵فروری ؁۱۹۶۱        صفحہ ۱کالم ۴)۔

۱۵۔ یہاں تک کہ عام طورپر عیسائی مبلغوں کوہدایت کردی گئی کہ وہ احمدیوں کے ساتھ تبادلہ خیالات نہ کریں۔ حال میں جوہر آباد میں ایک ایسا ہی واقعہ ہواہے جس کی رپورٹ درج ذیل کی جاتی ہے۔ حالانکہ عیسائیوں نے خود ہر ایک کوتبادلہ خیالات کاچیلنج دیا تھا مگر احمدیوں کا نام سن کر وہ اپنے اعلان کوبھی نظر انداز کرگئے۔

ذیل میں رپورٹ ملاحظہ ہو۔

اکتوبر کی ۲۸سے ۳۰تک جوہرآباد میں" مسیحی تبلیغی کنونشن" منعقد ہوئی ۔ کنونشن میں مسیحیوں اورمسلمانوں کواشتراک عمل کی دعوت دی گئی۔ مجلس خدام الاحمدیہ جوہر آباد نے دعوت کو قبول کرتے ہوئے شرکت کی۔ سرگودھا سے آئے ہوئے امریکن مشن کے پادری ایف ۔ ای سٹاک سے تبادلہ خیالات ہوا۔ پہلے روز یعنی ۲۸اکتوبر ۱۹۶۱کوصاحب موصوف نے وعدہ فرمایاکہ ہر طرح اور ہر پہلو پر گفتگو کرنے کے لیۓ تیار ہیں۔ہم ۲۹اکتوبر ۱۹۶۰ء کوخدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے گرجا میں پہنچ گئے ۔ مسٹر سٹاک صاحب سے ملاقات کی۔تبادلہ خیالات کے لئے عرض کی تواُنہوں نے پوچھا کیا آپ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں ؟ عرض کیا ہاں جناب" مسٹر سٹاک فرمانے لگے ہم جماعت احمدیہ کے کسی بھی فرد سے مذہبی گفتگو کے لئے تیار نہیں ہیں اورنہ ہی کریں گے۔ (روزنامہ الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۶۰ء)۔

 

مسیح

غلام احمد

۱۶۔ لڑا دے طوطے کوشہباز سے ۔

کہاں عیسائی مشنوں کے بے پناہ سازوسامان اور مال وزر کوپانی کی طرح بہانا تاکہ نعوذ بااللہ اسلام کا نام دنیا سے مٹا دیا جائے اورکہاں ابھی صرف ۲۵ لاکھ سالانہ بجٹ لے جانے کی خواہش اورکس لئے؟ کہ بیچ میدان دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کیا جائے ؟ ہے یہ بھی کوئی نسبت کی بات دنیا کے تمام ماہرین اقتصادیات اس نسبت کودیکھ کر ضرور قہقہ مار اٹھیں گے ۔ وہ کہیں گے " کیا پدی کیا پدی کا شوربا" (روزنامہ الفضل مورخہ ۱۲ اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ ۳ کالم ۲)۔

۱۶۔بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہواہےکہ جب افریقہ اورایشیا کے بعض ممالک میں اسلام اور احمدیت کی ترقی نمایاں نظر آتی ہے اور لوگ کثرت سے اسلام قبول کررہے ہیں توکیوں جماعت اپنی ہماری کوشش انہیں ممالک میں مرتکز نہیں کرتی اوریورپ جیسے سنگلاخ علاقوں میں جہاں خاطر خواہ نتائج نظر نہیں آتے وقت اور روپیہ کا ضیاع کیا جارہاہے ۔ (مغرب کے افق پر صفحہ ۲۴)۔

          میں ایک بار پھر محترم جمیل الرحٰمن صاحب کے الفاظ دوہرانا چاہتاہوں کہ "اگر کوئی مسئلہ علمی طورپر بالکل صحیح نظر آتاہو لیکن مشاہدہ اُس کے برعکس ہو تو وہ مسئلہ ایک سچائی کہلانے کا مستحق نہیں۔ کیونکہ مشاہدہ کوہ ومقام حاصل ہے جومنتطقی موشگاگیوں کو حاصل نہیں"۔(ماہنامہ مصباح ربوہ اپریل ۱۹۶۱ء)۔

          مندرجہ بالا مضمون قارئین کرام نے پڑھ لیا۔ اور مرزا صاحب کے دعوی برتری کی حقیقت بھی طشت ازبام ہوگئی۔ جہاں تک واقعات کی شہادت کا سوال ہے وہ مرزا صاحب کے برعکس ہے ۔ لہذا بقول محترم جمیل الرحٰمن صاحب آپ کادعویٰ برتری سچائی کہلانے کا مستحق نہیں۔فقط۔

Posted in: یسوع ألمسیح, اسلام, غلط فہمیاں | Tags: | Comments (0) | View Count: (15301)
Comment function is not open
English Blog