en-USur-PK
  |  
06

روحِ اللہ

posted on
روحِ اللہ
                     

THE SPIRIT OF GOD

The Messiah, Jesus son of Mary, was only a messenger of Allah,

And His word which He conveyed unto Mary, and a spirit from Him.

Al-Nisa 170

إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ

یقیناً مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا رسول ہے اللہ کا اور اُس کا کلام جوڈال دیا مریم کی طرف اورروح ہے اُس کے یہاں کی(سورہ النساءآیت ۱۶۹)۔

          اول حمدوثنا اللہ تعالیٰ غالب اورحکمت والے کے لئے ہے جو صاحبِ روح اورامین وعلیم ہے۔ اسکے بعد یہ عرض کیا چاہتاہوں کہ وہ آیاتِ قرآنی نہایت ہی اجمل واحسن ہیں جن میں مسیح کے مقام اوراُس کی شخصیت کی تشریح پائی جاتی ہے اور خصوصاًیہ مندرجہ بالاآیت کیا ہی عمدہ ہے کیونکہ اس میں مسیح کے " کلمتہ اللہ اور روح اللہ" ہونے کی تشریح ہے۔ اوراگر ہم آپ کے سامنے اس پوری آیت کے معنی کی تشریح کریں۔ توہمیں خوف ہے کہ بیان طویل ہوجائیگا لہذا بغرض اختصار اس آیت کے آخری الفاظ" روح منہ" کی طرف آپ کی توجہ مبزول کراتے ہیں۔

          جب علمائے اسلام نے اس آیت کے معنی پر غور کیا۔ تواُن کی عقلیں بالکل چکراگئیں۔ وہ اپنے میلانِ خاطر ورغبت کے مطابق ایسی ایسی تفسیریں کرنے لگے جوایک طرح سے قرآن کے اصل مفہوم پر پردہ ڈالتی ہیں۔ باوجود اپنی تمام تر کوششوں  کے بھی" روح اللہ " کو محض ایک انسان نہ بناسکے۔ اوراُن سے یہ بھی نہ ہوسکا کہ اس آیت کے طبعی اورواجبی نتیجہ سے بچ جائیں۔ چنانچہ امام الرازی صاحب نے نہایت غوروفکر کے بعد یوں لکھا" مسیح اس لئے روحِ اللہ کہلاتاہے کہ وہ اہلِ جہان کو اُن کے ایمان میں زندگی بخشتا ہے" قاضی بیضاوی فرماتے ہیں اُس میں وہ روح ہے جواللہ سے ہے بلاواسطہ خدا کے اصل اورجوہر میں مخلوط ہے اور روح اللہ کہلانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ مُردوں اوربنی آدم کے دلوں کو زندہ کرتاہے" اب دیکھئے ان مشہور مفسرین اسلام کے اقوال سے کیا ثابت ہوتاہے ۔ مشکل سے نکلنے کی غرض سے اُنہوں نے مندرجہ بالا بیانات تحریر کئے۔ لیکن اس سے مشکل اوربھی بڑھ گئی کیونکہ یہ القاب کسی نبی یا رسول یا فرشتہ یا فرشتوں کے سردار مقرب درگاہِ الہٰی سے بھی منسوب نہیں ہوسکتے اورفقط اللہ جل وعلیٰ ہی کو ان جلالی القاب سے ملقب کیا جاسکتاہے۔

          امام الرازی اور قاضی بیضاوی ہر دو فاضل عالموں نے مسیح کے" روح اللہ "کہلانے کا سبب یہ بیان کیاہے کہ وہ اہلِ جہان کو اُنکے ادیان میں زندگی بخشتاہے اوراُس میں وہ روح ہے جو بلاواسطہ اللہ سے صادر ہوئی ہے۔ اور وہ مُردوں اور بنی آدم کے دلوں کو زندہ کرتاہے۔ پس مقامِ غور ہے کہ مخلوق میں سے ایسا کون ہوسکتاہے جواہلِ جہان کو زندگی بخشنے کی طاقت  وقدرت رکھتاہو یہاں تک کہ احیائے اموات وقلوب پر بھی قادر ہو؟ بے شک بعض انبیاء کے بارے میں لکھاہے کہ اُنہوں نے میت کو اٹھا کر کھڑا کیا لیکن اُن کے حق میں یہ ہرگز نہیں لکھا کہ اُنہوں دلوں کو زندہ کیا۔ کیونکہ احیائے  قلوب یعنی دلوں کو زندہ کرنا روحِ اللہ ہی کا خاصہ ہے جوہر بات پر قادر ہے علاوہ بریں انجیل شریف میں احیائے قلوب سے پیدائش ثانی یعنی نئی پیدائش  مُراد ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اس نئی طبعیت کو عطا فرماتاہے تویہ نیکی کی طرف مائل وراغب ہوتی ہے جیسے پُرانی طبعیت بدی کی طرف راغب ہے لیکن روح اللہ یعنی خود اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے میں یہ قدرت نہیں کہ انسانی طبیعت کو جوشرارت کی طرف مائل ہے آسمانی اورصالحہ طبیعت میں تبدیل کردے۔ چنانچہ یعقوب ۱ باب کی ۱۸آیت میں یوں مندرج ہے" اُس نے اپنی مرضي سے ہمیں کلامِ حق کے وسیلہ سے پیدا کیا تاکہ اُس کی مخلوقات میں سے ہم ایک طرح کے پہلے پھل ہوں" پھر اسی مضمون پر انجیل یوحنا کے پہلے باب کی تیرھویں آیت میں مرقوم ہے" وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے ہیں"۔

          پس اس سے آپ نے صاف دیکھ لیاکہ اگرمسیح خدا نہ ہوتا تواُس میں احیائے قلوب کی قدرت نہ ہوتی اورجیسا کہ اُوپر ذکر ہوچکاہے امام الرازی اور قاضي بیضاوی کی تفاسیر بھی آیاتِ قرآن کی طرح الوہیت مسیح پر دلالت کرتی ہیں۔

          علاوہ ازیں اے بھائيو! جوکچھ مسیح کی شخصیت  اوراُس کے اوصاف کے باب میں کہا گیا ہے اگرآپ مختصراً اُسی  پر نظر کریں توآپ کو صاف معلوم ہوجائے گا کہ اُس کے جلال ورفعت کی کوئی انتہا نہیں۔ اگراُس کے بارے میں ایک مقام پر" روح اللہ" درج ہوتاہے اورکسی دوسرے مقام پر اُس کی صفات یا شان کے اسباب میں کوئی ایسی بات مرقوم ہوتی ہے جو اُس کے نقص پر دلالت کرتی توالبتہ آپ کو اُس کی الوہیت کی تردید کا موقع ملتا۔ مگر تمام قرآن میں اُس کے حق میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملتاجوروح اللہ ہونے کی مخالفت کرتے۔

          اوّل ۔ جب ہم نے مان لیاکہ " روح اللہ" نے بنی آدم پر انسانی صورت میں ظاہر ہونے اورایک طفل کی مانند مولود ہونے کا قصد کیا تو کیا یہ مناسب بلکہ واجب نہیں ٹھہرتا کہ جو عفیفہ اُس کی والدہ بنے وہ تخمِ انسانی کے بغیر ہی حاملہ ہو اور تمام مستورات میں سے افضل ترین والد ہو؟ ولادتِ مسیح میں یہ امر بکمال صراحت ایسا ہی پایا جاتاہے۔ جیساکہ قرآ ن اس کی تشریح کرتاہے کیونکہ قرآن میں صاف لکھاہے کہ اُس کی پیدائش تخمِ انسانی کے بغیر ہوئی اوراللہ تعالیٰ نے اُس کی والدہ کوبرگزیدگی عنایت کی اورتمام نساء العالمین پر فضیلت بخشی۔

          دوم۔ جوانسان" روح اللہ" ہو واجب ہے کہ اُس کی تمام صفات واوصاف پاک ہوں اوروہ ہر بات میں قدوس ہو۔ اس لحاظ سے کلمتہ اللہ (مسیح) میں یہ سب خوبیاں موجود تھیں۔ اگربنظرعمیق دیکھا جائے توتمام انسان انبیاء ورسل متقی اورزاہد سب کی زندگیوں میں کوئی نہ کوئی لغزش یاکمزوری موجود ہے جس سے اُن کی خطاکاری وگنہگاری خوب عیاں ہے۔ مگر روح اللہ (مسیح) قولاً، فعلاً اورخیالاً ہرطرح کی خطا ، لغزش اور کمزوری سے پاک ہے۔ جب خدا نے دیکھا کہ دنیا میں بُرائی کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اورانسان کے بچنے کی تمام اُمیدیں جاتی رہی ہیں انبیاء اوررسولوں کا مشن ایک حد تک فعل ہوگیا ہے توآخرکار " روح اللہ" کو جو تمام پاکیزگی اورنیکی کے اعتبار سے کفارہ کےلائق تھا چنُا اوراُس نے بھی اپنے خون پاک سے کفارہ ہونے سے دریغ نہ کیا۔ اوردنیا کے حقیقت شناسوں نے اُسے پہچانا۔ فی الحقیقت وہ " روح اللہ مجسم" ہے یاایک انجیل کی عبارت کے مطابق یوں کہیئے کہ وہ " کلمتہ الہ مجسم" ہے اور اُس کے کام اُس کی الوہیت پر سچی شہادت دیتے ہیں۔

          سوم۔ جوانسان" روح اللہ" ہواُس کی قدرت کیسی ہونی چاہیے اوراُس کی حد کہاں تک ہے؟ بیشک واجب ولازم ہے کہ اُس کی قدرت قدرتِ الہٰی کی طرح بالکل لاانتہا ولامحدود ہو۔ یقیناً مسیح کی قدرت ایسی ہی تھی کیونکہ وہ اپنے کلامِ قدرت سے دلوں کو زندگی اورمُردوں کو حیات بخشتا تھا۔ اُس نے طرح طرح کی بیماریوں سے بیماروں کو شفا بخشی۔ اُس نے عجیب  وغریب معجزے دکھائے۔ جیساکہ انجیل یوحنا کے پانچویں باب کی ۲۶، ۲۸، ۲۹ آیت میں مندرج ہے اُس نے نہایت صفائی اور صراحت کے ساتھ یوں فرمایا" جس طرح باپ اپنے آپ میں زندگی رکھتاہے اُسی طرح اُس نے بیٹے کو بھی یہ بخشا کہ اپنے آپ میں زندگی رکھے۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ وقت آتاہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سن کر نکلینگے ۔ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اورجنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے" ۔ روزِ قیامت  میں وہ ہزار ہا سال کے خاک شدُہ مُردوں کو زندہ کرکے اُن کے اجسام کے ساتھ اٹھا کھڑا کریگا۔ بے شک مسیح کی یہ قوت قوتِ الہٰی کا نہایت ہی عظیم الشان اظہار ہے۔ کیا عقل اس سے کوئی بڑی قوت تصور کرسکتی ہے؟

          چہارم۔ جو انسان" روح اللہ " ہو اُس کا درجہ ومقام کیسا ہونا چاہیے؟ واجب ولازم ہے کہ وہ نہایت ہی عالی مقام ہو بیشک مقام مسیح ایسا ہی تھا کیونکہ جب وہ اپنے تئیں کفارہ میں دے چکا تو تیسرے دن مُردوں میں سے جی اٹھا۔اورآسما پر تشریف لے گیا اور عرشِ الہٰی پر جا بیٹھا۔ چنانچہ قرآن میں بھی اس حقیقت کی طرف ایک صاف وصریح اشار ہ یوں مرقوم ہے" فرمایا اللہ نے اے عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا اوراپنی طرف اٹھانے والا ہوں " نیز کتابِ مقدس کہتی ہے کہ مسیح مومنین کے کمال کی مثال اورصاحب مقام عظیم ہے۔ چنانچہ فلپیوں کے دوسرے باب کی پانچویں سے گیارھویں آیت تک یوں درج ہے " ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔ اس نے اُگر چہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا بلکہ اپنے آپ کو خالی کردیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہوگیا اورانسانی شکل میں ظاہر ہوکر اپنے آپ کو پست کردیا اوریہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔ اسی واسطے خدانے بھی اُسے بہت سربلند کیا اوراُسے وہ نام بخشا جوسب ناموں سے اعلیٰ ہے تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا ٹکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہوخواہ زمینیوں کا ہو۔ خواہ اُن کا جوزمین کے نیچے ہیں اورخداباپ کے جلال کے لئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ  یسوع مسیح خداوند ہے۔

          ناظرین! آپ نے دیکھ لیا ہے کہ وہ تمام القاب۔ اعمال اور صفات جن کو قرآن نے مسیح سے منسوب کیا ہے اُس کی الوہیت پر دلیل قاطع ہیں۔ اورعقل اسے تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ کا شکہ ہمارے دماغوں کے پردوں سے تعصب کی پٹی اُتر جائے اورہم اس زندگی کے بھید پر مزید واقفیت  اور تفصیل کے ساتھ مطالعہ کرنے کیلئے  کتابِ مقدس کو پڑھیں۔ پس آپ " روح اللہ" پر ایمان لائیں اوراُس کفارہ پر جوانسان گنہگار کی نجات کے لئے دیا گیا اُس پر دلی توکل رکھیں اوراُس کی اُس قدرتِ کاملہ پر بھی بھروسہ رکھیں جودلوں کو زندہ کرتی اور توبہ وایمان اورتمام اعمال صالحہ کی توفیق بخشتی ہے۔ اس اہم معاملے میں اپنے دلوں کو سخت اوراپنے کانوں کو بند نہ کریں۔ کیونکہ اب آپ کو ایمان لانے اورتوبہ کرنے کی فرصت ومہلت ہے۔ مگر حشر کے دن آپ کو یہ فرصت مہلت نہیں ملیگی۔ کیا آپ  یہ جانتے ہیں کہ آپ کو خدا کے سامنے ایک دن حاضر ہونا ہے اوروہ آپ سے ہرایک بات کا حساب لیگا؟ یہ سوال ایک گہری اہمیت رکھتاہےاور بغیر  اس پر فیصلہ کئے اس کو چھوڑ دینا بھاری غلطی ہوگی" اگر  انسان ساری دنیا کی دولت حاصل کرے اوراپنے جانِ عزیز کو کھوبیٹھے تواُسے کیا حاصل ہوا" خدا ہمیں راہِ راست  پر لا کر عمل کی توفیق دے۔ ہم آپ کیلئے خدا سے دعا بھی کرتے ہیں کہ وہ آپ کو ایمان وتقویٰ عطا فرمائے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر اور دعاؤں کا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔


Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, اسلام, تفسیر القران | Tags: | Comments (0) | View Count: (30002)
Comment function is not open
English Blog