en-USur-PK
  |  
06

صُلح کرانے والے

posted on
صُلح کرانے والے

Blessed are the peacemakers

صُلح کرانے والے

                        ہمارے اطراف دنیا میں بارہا حسد  مخالفت اور جھگڑے دکھائی دیتے ہیں۔ خاندان قبیلوں فوجوں اور قوموں کے درمیان  ہوتی لڑائیو کے واقعات سے تواریخ بھری پڑی ہے۔ کلامِ مقدس میں لکھا ہے کہ ان باتوں کی وجہ سے ہمارے اور خدا کے درمیان جدائی ہوگئی اور ہم خدا سے دُور کردئیے گئے۔ اسکے باوجودبھی کلام مقدس میں بہت سے مثالیں ایسے لوگوں کی موجودہیں۔ جوآزمائیشوں سے نکل کر پڑوسیوں سے میل ملاپ کرکے رہے ہیں۔ وہ ایسا اس لئے کرسکےکیونکہ اُنہوں نے خدا سے میل ملاپ کرلیا تھا اور پورا بھروسہ خدا پر رکھتے تھے۔کہ وہ مخالف حالات کودوستانہ ماحول سے بدل دے گا۔

          حضرت ابراہیم کے پاس چوپائے اور سونا چاندی بکثرت تھا۔ اور وہ کنعان کے جنوب سے سفر کرتا ہوا بیت ایل میں اُس جگہ پہنچے جہاں پہلے بیت ایل اور عی کے درمیان اُن کا ڈیرہ تھا۔ یعنی وہ مقام جہاں آپ نے شروع میں قربان گاہ بنائی تھی اوروہاں حضرت ابراہیم نے خداتعالیٰ سے دُعا کی۔ اور حضرت لوط کے پاس بھی جو حضرت ابراہام کے ہم سفر تھے ۔ بھیڑ بکریاں گائے بیل اور ڈیرے تھے۔ اوراُس ملک میں اتنی گنجائش نہ تھی کہ وہ اکٹھے رہیں کیونکہ اُن کے پاس اتنا مال تھاکہ وہ اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔ اور حضرت ابراہام کے چرواہوں اور حضرت لوط کے چرواہوں میں جگھڑا ہوا اورکنعانی اور فرزی اُس وقت ملک میں رہتے تھے۔ تب حضرت ابراہام  نے حضرت لوط سے کہا کہ میرے اور تیرے درمیان جھگڑا نہ ہوا کرے کیونکہ ہم بھائی ہیں۔ کیا یہ سارا ملک تیرے سامنے نہیں؟ سو تومجھ سے الگ ہوجا۔ اگر توبائیں طرف جائے تومیں دہنے جاؤں گا اوراگر تو دہنے جائے تومیں بائیں جاؤں گا۔ تب لوط نے آنکھ اٹھاکر یردن کی ساری ترائی پر جوضغر کی طرف ہے نظر دوڑائی کیونکہ وہ اس سے پیشتر کہ خداوند نے سدوم اور عمورہ کوتباہ کیا خداوند کے باغ اور مصر کے ملک کی مانند خوب سیراب تھی۔ سولوط نے یردن کی ساری ترائی کواپنے لئے چن لیا اور وہ مشرق کی طرف چلا اور وہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے"۔

          حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اضحاق نے بھی اپنے والد کی پیروی کی اورجب وہ ایک بُت پرست راجہ نے اُسے غلط راستے پر ڈال دیا توبھی صلاح کرانے والے کا کردار ادا کیا۔

          اُس ملک میں اُس پہلے کال کے علاوہ جوابرہام کے ایام میں پڑا تھا پھر کال پڑا۔ تب اضحاق جرار  اور فلستیوں کے بادشاہ ابی ملک کے پاس گیا۔ اورخدا نے اُس پر ظاہر ہوکر کہا کہ مصر کو نہ جانا بلکہ جو ملک میں تجھے بتاؤں اُس میں رہ۔ تواسی ملک میں قیام رکھ اور میں تیرے ساتھ رہوں گا اورتجھے برکت بخشوں گا کیونکہ میں تجھے اور تیری نسل کو یہ سب ملک دُوں گا اورمیں اُس قسم کوجومیں نے تیرے حضرت ابرہیم سے کھائی پورا کروں گا۔ اس لئے کہ ابراہام نے میری بات مانی اور میری نصیحت اورمیرے حکموں اور قوانین وآئین پر عمل کیا"۔

          "اضحاق  نے اُ س ملک میں کھیتی کی اوراُسی سال اُسے سوگنا پھل ملا اورخداوند نے اُسے برکت بخشی۔ اوروہ بڑھ گیا اور اُس کے پاس بھیڑ بکریاں اورگائے بیل اور بہت سے نُوکر چاکر تھے اور فلستیوں کو اُس پر رشک آنے لگا اوراُنہوں نے سب کنوئیں جواُس کے باپ کے نوکروں نے اُس کے باپ ابرہام کے وقت میں کھودے تھے بند کردئیے اوراُن کو مٹی سے بھر کردیا۔ اورابی ملک نے اضحاق سے کہا کہ تو"ہمارے پاس سے چلا جا کیونکہ تو ہم سے زیادہ زور آور ہوگیا ہے"۔ تب اضحاق  نے وہاں سے جرار  کی وادی میں جاکر اپنا ڈیرہ لگایا۔  اوروہاں  رہنے لگا۔ اور اضحاق نے پانی کے اُن کنوؤں کو جو اُس کے باپ ابرہام کے ایام میں کھودے گئے تھے پھر کھدوایا کیونکہ فلسیتوں نے ابرہام کے مرنے کے بعد اُن کو بند کردیا تھا۔اور اُس نے پھروہی نام رکھے جواُس کے باپ نے رکھے تھے۔

          تب ابی ملک نے اپنے دوست اخوزت اوراپنے سپہ سالار فیکل کوساتھ لے کر جرار سے اُس کے پاس گیا۔ اضحاق نے اُن سے کہا کہ تم میرے پاس کیونکر آئے حالانکہ مجھ سے کینہ رکھتے ہو اور مجھ کو اپنے پاس سے نکال دیا۔ اُنہوں نے کہا "ہم نے خوب صفائی سے دیکھا کہ خداوند تیرے ساتھ ہے سوہم نے کہا کہ ہمارے اورتیرے درمیان قسم ہوجائے اورہم تیرے ساتھ عہد کریں ۔ کہ جیسے ہم نے تجھے چھواتک نہیں اور سوا نیکی کے تجھ سے اورکچھ نہیں کیا اورتجھ کوسلامت رخصت کیا توبھی ہم سے کوئی بدی نہ کرے گا کیونکہ تواب خداوند کی طرف سے مبارک ہے"۔تب اُس نے اُن کے لئے ضیافت تیارکی اوراُنہوں نے کھایا پیا۔اوروہ صبح سویرے اٹھے اورآپس میں قسم کھائی اور اضحاق نے اُن کو رخصت کیا اور اُس کے پاس سے سلامت چلے گئے"۔(توریت شریف کتابِ پیدائش باب 26آیت 1سے 5۔ 12 سے 18 اور 26 سے 31تک)۔

          داؤد بادشاہ بننے سے بادشاہ ساؤل کی طرف سخت دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ساؤل اُس ابھرتے جنگجو اوراُس ک شہوت سے خوف زدہ تھا۔ وہ دن رات اُس کے قتل کی فکر میں رہتا تھا۔ کہانی میں پڑھیں گے کہ حضرت داؤد نے کس طرح ساؤل بادشاہ کی جان بخشی کی جبکہ اُس کے لئے اپنے دشمن سے بدلہ لینے کا سنہری موقع تھا۔

          جب ساؤل فلستیوں کا پیچھا کرکے لُوٹا تواسے خبرملی کہ داؤد عین جدی کے بیابانوں میں ہے۔ سو ساؤل سب اسرائیلیوں میں سے تین ہزار چیدہ مردے لے کر جنگلی بکروں کی چٹانوں پر داؤد اوراُس کے لوگوں کی تلاش میں چلا۔ اور راستہ میں بھیڑ سالوں کے پاس پہنچا جہاں ایک غار تھا اور ساؤل اُس غار کے اندرونی خانوں میں بیٹھا تھا۔ اور داؤد کے لوگوں نے اُس سےکہا دیکھو یہ وہ دن ہے جس کی بابت خداوند نے تجھ سے کہا تھا کہ دیکھ میں تیرے دشمن کو تیرے ہاتھ میں کردوں گا اور جوتیرا جی چاہے سوتو اُس سے کرنا۔ سوداؤد اٹھ کرساؤل کے جُبہ کا دامن چپکے سےکاٹ لے گیا۔ اور اُس کے بعد ایسا ہوا کہ داؤد کا دل بے چین ہوا اس لئے کہ اُس نے ساؤل کے جُبہ کا دامن کاٹ لیا تھا۔ اُس نے اپنے لوگوں سے کہا کہ "خداوند نہ کرے کہ میں اپنے مالک سےجو خداوند کا ممسوح ہے ایسا کام کروں کہ اپنا ہاتھ اُس پر چلاؤں اس لئے کہ وہ خداوند کا ممسوح ہے۔سوداؤد نے اپنے لوگوں کو یہ باتیں کہہ کر روکا اوراُن کو ساؤل پر حملہ کرنے نہ دیا اور ساؤل اٹھ کر غار سے نکلا اوراپنی راہ لی ۔

          اور بعد اُس کےداؤد بھی اٹھا اورساؤل کے پیچھے پکارکر کہنے لگا اے میرے مالک بادشاہ ! جب ساؤل نے پیچھے پھر کر دیکھا توداؤد نے اوندھے منہ کر سجدہ کیا۔ اور داؤد نے ساؤل سے کہ " توکیوں ایسے لوگوں کی باتوں کوسنتاہے جو کہتے ہیں داؤد تیری بدی چاہتاہے ؟ دیکھ آج کے دن تونے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خداوند نے غار میں آج ہی تجھے میرے ہاتھ میں کردیا اور بعضوں نے مجھ سے کہا بھی کہ تجھے مار ڈالوں پر میری آنکھوں نے تیرا لحاظ کیا اورمیں نے کہا کہ میں اپنے مالک پر ہاتھ نہیں چلاؤں گا کیونکہ وہ خداوند کا ممسوح ہے۔ماسوا اس کے آئے میرے باپ!دیکھ ۔ یہ بھی دیکھ کہ تیرے جُبہ کا دامن میرے ہاتھ میں ہے اور چونکہ میں نے تیرے جُبہ کا دامن کانٹا اورتجھے مار نہیں ڈالا سوتو جان لے اوردیکھ لے کہ میرے ہاتھ میں کسی طرح کی بدی یا بُرائی نہیں اورمیں نے تیرا کوئی گناہ نہیں کیا گوتو تیری جان لینے کے درپے ہے۔ خداوند تیرے اورمیرے درمیان انصاف کرے اور خداوند تجھ سے میرا انتقام لے پر میرا ہاتھ تجھ پر نہیں اٹھے گا ۔ قدیم لوگوں کی مثل ہے کہ بُروں سے بُرائی  ہوتی ہے پر میرا ہاتھ تجھ پر نہیں اٹھے گا ۔ اسرائیل کا بادشاہ کس کے پیچھے نکلا؟ تو کس کے پیچھے پڑا ہے ؟ایک مرے ہوئے کتے کے پیچھے ۔ ایک پسو کے پیچھے ۔ پس خداوند ہی منصف جو اور میرے اور تیرے درمیان فیصلہ کرے اوردیکھے اور میرا مقدمہ لڑے اور تیرے ہاتھ سے مجھے چھڑائے"۔ اورایسا ہوا کہ جب داؤد یہ باتیں ساؤل سے کہہ چکا تو ساؤل نے کہا اے میرے بیٹے داؤد  !کیا یہ تیری آواز  ہے؟ اور ساؤل چلا کر رونے لگا۔ اوراُس نے داؤد سے کہا " تومجھ سے زیادہ صادق ہے اس لئے کہ تونے میرے ساتھ بھلائی کی ہے۔ حالانکہ میں نے تیرے ساتھ برائی کی۔ اورتونے آج کے دن ظاہر کردیا کہ تونے میرے ساتھ بھلائی کی ہے۔ کیونکہ جب خداوندنے مجھے تیرے ہاتھ میں کردیا توتوُنے مجھے قتل نہ کیا۔ بھلا کیا کوئی اپنے دشمن کوپاکر اُسے سلامت جانے دیتا ہے؟سو خداوند اُس نیکی کے عوض جوتونے مجھ سے آج کے دن کی تجھ کونیک جزا دے۔ اوراب دیکھ میں خوب جانتا ہوں کہ تویقیناً بادشاہ ہوگا اوراسرائیل کی سلطنت تیرے ہاتھ میں پڑ کر قائم ہوگی۔سواب مجھ سے خداوند کی قسم کھا کہ تومیرے بعد میری نسل کوہلاک نہیں کرے گا اورمیرے باپ کے گھرانے میں سے میرے نام کو مٹا نہیں ڈالے گا ۔ سو داؤد نے ساؤل سے قسم کھائی اورساؤل گھر کوچلاگیا پر داؤد  اور اُسکے لوگ اُس گڑھ میں جا بیٹھے"۔(کتابِ مقدس 1۔سیموئیل باب 24 آیت 1سے 22تک)۔

          سیدنا مسیح نے جنہیں کلامِ مقدس میں سلامتی کا شہزادہ کہا جاتاہے اُن لوگوں کومبارک کہا ہے جوسچے دل سے خدا کی مرضی کے طالب ہوتے ہیں اور بے دینوں کے ہاتھ ستائے جانے کے باوجود بھی وہ صلح کرواتے ہیں۔

          مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی ان ہی کی ہے ۔

          مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے ۔

          مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ  وہ زمین کے وارث ہوں گے ۔

          مبارک ہیں وہ جو نیکی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے ۔

          مبارک ہیں وہ جو رحم دل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جائے گا۔

          مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ اللہ وتبارک تعالیٰ  کو دیکھیں گے ۔

          مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ پروردگار کے پیار ے کہلائیں گے ۔

          مبارک ہیں وہ جو نیکی کے سبب سے ستائے گئے ہیں کیونکہ  " آسمان کی بادشاہی " ان ہی کی ہے۔ جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن  کریں گے اور ستائیں گے اور ہرطرح کی بری باتیں  تمہاری نسبت  ناحق کہیں گے تو تم مبارک ہوگے ۔ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ  آسمان پر تمہارا  اجر بڑا ہے اس لئے  کہ لوگوں نے ان نبیوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے اسی طرح ستایا تھا۔(انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی باب 5آیت 6سے 12تک)۔

          سیدنا مسیح کے ایک نزدیکی صحابی اُن لوگوں کونصیحت کرتے ہیں جوالہٰی حکمت پر مبنی میل ملاپ کی زندگی گزارنے کی آرزو رکھتے ہیں۔

          تم میں دانا اور فہیم کون ہے؟ جو ایسا ہو وہ اپنے  کاموں کو نیک چال چلن کے وسیلہ سے اس حلم کے ساتھ ظاہر کرے جو حکمت  سے پیدا ہوتاہے۔  لیکن اگر تم اپنے دل میں سخت حسد اور تفرقے  رکھتے ہو تو حق کے خلاف نہ شیخی مارو نہ جھوٹ بولو۔ یہ حکمت  وہ نہیں  جو اوپر سے اترتی ہے بلکہ  دینوی  اور نفسانی اور شیطانی ہے اس لئے کہ جہاں  حسد اور تفرقہ  ہوتاہے وہاں فساد اور ہر طرح کابرا کام بھی ہوتاہے ۔ مگر جو حکمت  اوپر سے آتی ہے اول تو وہ پاک ہوتی ہے۔پھر ملنسار  حلیم اور تربیت پذیر ۔ رحم اور اچھے پھلوں سے لدی ہوئی ۔ بے طرف دار اور بے ریا ہوتی ہے ۔  اور صلح کرانے والوں کے لئے سچائی کا پھل صلح کےساتھ بویا جاتا ہے ۔(انجیل شریف مکتوب الیہ حضرت یعقوب رکوع 3آیت 13سے 18تک)۔

          سیدنا مسیح کے ایک دوسرے صحابی بتاتے ہیں کہ کس طرح معمولی انسانی ہستی خدا کا دوست بن سکتی اور دنیا میں صلح کرانے والے بن سکتی ہے۔

          " اس لئے اگر کوئی سیدنا مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پرانی چیزیں  جاتی رہیں ۔ دیکھو  وہ نئی ہوگئیں۔ اور سب چیزیں  پروردگار کی طرف سے ہیں  جنہوں نے سیدنا مسیح کے وسیلہ سے اپنے ساتھ ہمارا میل ملاپ کرلیا اورمیل ملاپ کی خدمت  ہمارے سپرد کی ۔ مطلب یہ ہے کہ پاک پروردگار نے سیدنا مسیح میں ہوکر اپنے ساتھ دنیا کا میل ملاپ کرلیا اوران کی تقصیروں کو ان کے ذمہ نہ لگایا اور اس نے میل ملاپ کا پیغام ہمیں سونپ دیاہے۔ پس ہم سیدنا مسیح کے ایلچی ہیں۔گویاہمارے وسیلہ سے پروردگار التماس کرتے ہیں ۔ ہم سیدنا مسیح کی طرف سے  منت کرتے ہیں کہ پروردگار سے میل ملاپ کرلو۔جوگناہ سے واقف نہ تھے انہیں ہی پروردگار نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تاکہ ہم ان میں ہوکر پروردگا کی سچائی ہوجائیں۔(انجیل شریف  مکتوب الیہ دوئم اہلِ کرنتھس رکوع 5آیت 17سے 21تک)۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس | Tags: | Comments (0) | View Count: (17584)
Comment function is not open
English Blog